Maktaba Wahhabi

530 - 548
اتری تھیں، اسی کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پسند کیا ہے۔ صحیح بخاری میں جبریل علیہ السلام کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا )) [1] [اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو] یہ بات شکوک و شبہات سے بالا تر ہے کہ تمام انبیا و صلحا اللہ کے عابد وپرستار ہیں، لیکن اب ان ملحدین نے ان عباد کو معبود بنا لیا ہے اور معاملے کو الٹ دیا ہے۔ یہی معبود قیامت کے دن ان کے شرک کے منکر ہو جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کریں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ﴾ [الفاطر: ۱۴] [قیامت کے دن وہ تمھارے شرک کا انکار کریں گے] دوسری جگہ فرمایا: ﴿وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِھَۃً لِّیَکُوْنُوْا لَھُمْ عِزًّا * کَلَّا سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِھِمْ وَ یَکُوْنُوْنَ عَلَیْھِمْ ضِدًّا﴾ [مریم: ۸۱، ۸۲] [اور ان مشرکوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بنا لیا ہے، تاکہ وہ ان کے لیے عزت ہوں۔ ہرگز نہیں، وہ ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور ان کے دشمن ہو جائیں گے] غرض کہ جو کوئی ایسا کام کرتا ہے جو اہلِ کفر کا عمل ہے یا ایسی بات کہتا ہے جو اہلِ کفر کی باتوں جیسی ہے تو وہ ان آیات کا مصداق ہے جو اہلِ کفر کی شان میں آئی ہیں، گو وہ اپنے بارے میں یہ گمان بلکہ یقین کرے کہ وہ مسلمان ہے۔ جس طرح کوئی کافر اگر اسلام کی کوئی خصلت بجا لائے اور کلمۂ اسلام زبان سے کہے، لیکن دل سے تصدیق نہ کرے تو وہ اتنی بات سے مسلمان نہیں ہوتا۔ شرک ایمان اور کفر کے درمیان ایک مشترک شے ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ھُمْ مُّشْرِکُوْنَ﴾ [یوسف: ۱۰۲] یعنی اقرارِ ایمان کے باوجود اکثر لوگ مشرک ہوتے ہیں، اس کے مقابل توحید اور اخلاصِ عبادت
Flag Counter