Maktaba Wahhabi

216 - 548
گی جس طرح کتے روتے ہیں۔ اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے۔[1] 10۔صحیح بخاری میں آیا ہے کہ جب حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم وفات پا گئے تو ان کی بیوی نے سال بھر تک ایک خیمہ ان کی قبر پر لگایا، پھر اٹھا لیا تو ایک پکارنے والے کو سنا کہ وہ کہہ رہا ہے: ’’ألا ھل وجدوا ما فقدوا؟‘‘ یعنی کیا انھوں نے پا لیا جو گم کیا تھا؟ تو دوسرے نے کہا: ’’بل یئسوا فانقلبوا‘‘ یعنی نہیں، بلکہ نا امید ہو کر لوٹ گئے۔[2] یعنی اسی طرح اگر ہزار برس غم میں رہو تو مردہ تو پھر آنے والا نہیں، لہٰذا زیادہ سوگ میں بیٹھنا اور بہت سا غم کرنا لا حاصل ہے۔ آدمی اللہ کی اس قدر عبادت کرے کہ خود اس کی عاقبت درست ہو۔ إن عشت تفجع بالأحبۃ کلھم وفناء نفسک لا أبا لک أفجع [اگر تم زندہ رہے تو سارے رفقا واحباب پر غم زدہ ہو گے اور خود تمھاری ذات کا فنا ہونا، تمھارا باپ نہ رہے زیادہ حسرت وافسوس کا باعث ہے] 11۔حدیثِ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا میں فرمایا ہے کہ کسی عورت کے لیے حلال نہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے کہ تین دن سے زیادہ سوگ میں بیٹھے، مگر اپنے خاوند پر چار مہینے دس دن۔[3] اس سے معلوم ہوا کہ تین دن سے زیادہ بھائی، باپ، چچا، ماموں، بھانجے اور بھتیجے کے لیے سوگ میں رہنا حرام ہے، بلکہ تین دن کے بعد ہی بے حاجت خوشبو لگائے اور رنگین کپڑے پہنے تا کہ یہ رسمِ بد اُٹھ جائے۔ 12۔حدیثِ عمران بن حصین وابی برزہ رضی اللہ عنہما میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازے میں دیکھا کہ لوگ چادر اتارے ہوئے صرف کرتوں میں جنازے کے پیچھے چلے آتے ہیں۔ فرمایا: کیا تم جاہلیت کا کام اختیار کرتے ہو یا رسمِ جاہلیت کی مشابہت کرتے ہو؟ میں نے قصد کیا تھا کہ میں
Flag Counter