Maktaba Wahhabi

204 - 548
کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کو ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔[1] قیامِ تعظیم میں یہ ممانعت نص قطعی ہے۔ 5۔نیز حدیثِ عمر رضی اللہ عنہ میں فرمایا ہے: (( لَا تُطْرُوْنِيْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَاریٰ عِیْسَی بْنَ مَرْیَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہٗ فَقُوْلُوْا: عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ )) [2] (رواہ الشیخان) یعنی مجھ کو مت بڑھاؤ جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو بڑھایا۔ میں تو اس کا بندہ اور مملوک ہوں۔ تم مجھ کو یہی اللہ کا بندہ اور رسول کہو۔ یہ اس لیے کہ بشر کے حق میں پیغمبری سے بڑا کوئی رتبہ نہیں ہے۔ سارے مرتبے اس سے نیچے ہیں۔ آدمی رسول ہو کر بھی آدمی ہی رہتا ہے اور بندہ ہوتا ہے، اس میں کچھ خدائی کی شان نہیں آ جاتی اور نہ وہ اللہ کی ذات میں مل جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ پیروں اور بزرگوں اور بڑے آدمیوں کی نظم ونثر میں یا گفتگو میں زیادہ تعریف کرتے ہیں، تو یہ سب نصاریٰ کے رویے پر چلتے ہیں، جو اَدب و شرع کے طریقے سے باہر ہے۔ 6۔اسی لیے حدیثِ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ میں فرمایا ہے کہ جب تم مدح کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ میں خاک بھر دو۔ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔[3] یعنی جو لوگ بزرگوں اور امیروں کی تعریف میں خوشامد سے مبالغہ کرتے ہیں تو خود بھی دیدہ ودانستہ جھوٹ بولتے ہیں اور جس کی تعریف کرتے ہیں وہ بھی مغرور ہو جاتا ہے، پھر ایسے شخص کو کچھ دینا تو کیا ایسے شخص کے منہ میں خاک بھر دے، تا کہ پھر ایسی حرکت نہ کرے۔ 7۔ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوسرے شخص کی تعریف کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: تیری خرابی ہو، تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹی۔ پھر فرمایا کہ تم میں سے جس کو کسی کی تعریف کرنی ہو تو اتنا کہے: (( أَحْسِبُ فُلاَناً وَاللّٰہُ حَسِیْبُہٗ ))یعنی میں فلاں سے نیک گمان ہوں اور اللہ اس کا حال خوب جانتا ہے۔ اگر خیال کرے کہ وہ شخص ایسا ہی ہے
Flag Counter