Maktaba Wahhabi

172 - 548
یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ صحابہ کا ذکر دنیا میں ان کے وجود سے قبل موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کی کتابوں میں ہو چکا ہے کہ وہ لوگ بڑے خدا پرست، کامل الایمان ہوں گے اور ان پر غصہ انھیں کو آئے گا جو کافر ہیں۔ ہر چند اس آیت میں سب اصحاب کی تعریف ہے، مگر یہ چار باتیں جو یہاں بیان ہوئیں: 1۔ایک ﴿اَلَّذِیْنَ مَعَہٗٓ﴾ یہ ابو بکر رضی اللہ عنہ پر صادق ہے کہ حیات اور ممات کے بعد وہ ایک ہی جگہ غار میں اور دفن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ 2۔دوسرے ﴿اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ﴾ اس کے مصداق عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔ جس دن وہ مسلمان ہوئے، سب مسلمانوں نے باہر نکل کر نماز پڑھی، اس سے پہلے چھپ کر پڑھتے تھے۔ 3۔﴿رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ﴾ کا مصداق عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ 4۔﴿تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا﴾ کا مصداق علی مرتضی رضی اللہ عنہ ہیں۔ الغرض جو شخص اصحاب واہلِ بیت کی تعریف وثنا سن کر ناخوش ہو وہ کافر ہے اور اللہ کی درگاہ سے راندہ ہوا ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی صحابی یا عترت سے کچھ گناہ کا کام بھی ہو گیا تھا تو وہ معاف ہو چکا ہے، کیونکہ اللہ نے مغفرت کا وعدہ فرما دیا ہے۔ یہ آیت رافضہ کے کفر پر حجت ہے۔ اس لیے کہ ان کو اصحاب پر غیظ آتا ہے اور وہ صحابہ کو گالی دیتے اور برا کہتے ہیں، نیز یہ آیت خوارج و نواصب کے کفر پر دلیل ہے، کیونکہ وہ اہلِ بیت کے دشمن ہیں۔ پھر آیت ﴿لِلْفُقَرَآئِ الْمُھٰجِرِیْنَ﴾ [الحشر: ۸] میں مہاجرین کو صادقین اور انصار کو ’’مفلحین‘‘ فرمایا ہے اور تمام اہلِ اسلام کو دوسری آیت میں یہ ارشاد کیا ہے کہ ﴿ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ [التوبۃ: ۱۱۹] اس سے ثابت ہوا کہ ہم کو دین میں صحابہ کے ہمراہ رہنا چاہیے، پھر صحابہ میں ان کو فضیلت ہے، جنھوں نے فتح سے پہلے مال خرچ کیا اور اللہ کی راہ میں لڑے۔ ان کے درجے کو ’’اعظم‘‘ فرمایا ہے، اگرچہ پچھلے لوگوں سے بھی جنت کا وعدہ ہے، لیکن سابقین واولین کے حق میں فرمایا: ﴿رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ [التوبۃ: ۱۰۰] [اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ لوگ اللہ سے راضی ہو گئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ
Flag Counter