جاتا ہے۔
۵۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں راسخ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب بیوی کے فضائل و مناقب خطبوں اور تحریری مقالات میں بیان کیے جاتے ہیں ۔
۶۔فقہ، حدیث اور دعوت کی مجلات میں کتب اور تحقیقی مقالے اور اس باب میں منہج اہل سنت کے مطابق تحقیقات کا نشر ہونا۔
اختصار کے ساتھ تحریر کردہ مذکورہ امور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی یاد دلاتے ہیں :
﴿لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ﴾ (النور: ۱۱)
’’اسے اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ ‘‘
اگرچہ آیت کریمہ تو اس واقعہ افک کے ضمن میں نازل ہوئی جو منافقوں نے تیار کی تھی لیکن آج آیت کا نکھار واضح ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان بلند کرنا چاہی اور ایسا کیوں نہ ہوتا بالآخر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبہ ہے۔
جس حقیقت میں ذرہ بھر شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا فضل و سبقت سے بھرنے کے لیے اپنا کشکول ہمیشہ بلند رکھتیں اور بے عقل روافض عفیفۂ کائنات عائشہ رضی اللہ عنہا کے ان اعمال و نظریات پر مواخذہ کرتے ہیں جن کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی توجیہات اور ارشادات عائشہ رضی اللہ عنہا کی جانب مبذول کرتے رہتے تھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہ نظریات دو طرح سے ان کے حق میں جاتے ہیں :
۱۔یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ توجیہات و تادیبات مسلمان گھرانے کے لیے باعث تربیت و برکت بن گئی ہیں ۔
۲۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر نصیحت کو توجہ سے سننا اور اس پر عمل کرنا ہر مسلمان عورت کے لیے مشعل راہ ہے۔
آخر میں ہم یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے واقعہ افک کے یہ چند مثبت فوائد تحریر کیے گئے جو دراصل دریا میں سے چلو بھر پانی لینے کے مترادف ہے۔
٭٭٭
|