Maktaba Wahhabi

667 - 677
اپنی حاجت مندی کا بیان وغیرہ جمع کرنے کے بعد لکھا: ’’اگر اللہ تعالیٰ حقیقت حال سے اپنے رسول کو پہلے ہی مرحلے میں آگاہ کر دیتا اور فوراً اس کے متعلق وحی نازل ہو جاتی تو مذکورہ حکمتیں بلکہ اس سے بڑھ کر دوگنا چوگنا حکمتیں حاصل نہ ہوتیں ۔‘‘[1] ب:یہ کہ اس حادثہ سے اہل ایمان کو بے شمار اعلیٰ قسم کے آداب اسلامی کی تعلیم ملی۔ جیسے اہل ایمان کی نیک نامی کی تمنا کرنا اور آپس میں حسن ظن قائم رکھنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کو تادیباً یہ سمجھایا گیا کہ وہ کسی بھی مومن کے ذاتی معاملے کو اپنے اوپر قیاس کر کے سمجھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُبِينٌ﴾ (النور: ۱۲) ’’کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا اور کہا کہ یہ صریح بہتان ہے۔‘‘ اکثر مفسرین نے یہ حکمت بھی تحریر کی کہ اسی طرح ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ دوسرے مسلمان کا دفاع کرے۔ خصوصاً جب معاملہ ان میں سے اہل علم و فضل کا ہو۔ نیز یہ فائدہ بھی حاصل ہوا کہ بات کو پھیلانے سے پہلے اس کی تحقیق کر لینی چاہیے اور اس کی صحت کی چھان بین کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ﴾ (النور: ۱۶) ’’اور کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو کہا ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم اس کے ساتھ کلام کریں ، تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔‘‘[2] اسی طرح اہل ایمان کے درمیان فحش باتوں کی نشر و اشاعت سے بھی روک دیا گیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان میں ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَ
Flag Counter