Maktaba Wahhabi

666 - 677
ہم کہتے ہیں : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دین کو امت کی طرف منتقل کرنے والے اصحاب رضی اللہ عنہم پر طعن و تشنیع کرنے والوں کے ساتھ محبت جتلانا دین و امانت کی کمزوری کی دلیل ہے۔ اے اللہ! تو ہم پر اپنے دین اسلام کی وجہ سے رحم فرما۔ ۱۱۔یہ کہ قیامت تک پاک دامنی عائشہ رضی اللہ عنہا کی صفت لازمہ بن گئی اور یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم حکمت ہے۔ اسی لیے مسروق بن اجدع جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی حدیث روایت کرتے تو یوں کہتے: ’’صدیقہ بنت صدیق، اللہ تعالیٰ کے محبوب کی محبوبہ، پاک دامن و پاک باز سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی۔‘‘[1] مسروق رحمہ اللہ کی کنیت (ابو عائشہ) تھی۔[2] ۱۲۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان تواضع و انکساری کی وضاحت:.... یہ کہ وہ اپنی براء ت کے لیے اپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے معاملے میں قرآن نازل کرے۔ ٭:.... اہل علم نے مزید کتنے ہی فوائد جمع کیے ہیں جو اس حادثہ میں سامنے آئے۔ ان میں سے اہم درج ذیل ہیں : الف: دَورِ ابتلاء:.... اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آزمایا اس طرح سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ، سیّدنا صفوان بن معطل، سیّدنا حسان بن ثابت اور سیّدہ حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہم کی بھی آزمائش کی۔ اللہ کے فضل سے سب ہی اس آزمائش سے خالص سونا بن کر کامیاب ہوئے اور آزمائش نیک انجام پر منتج ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دونوں کے خاندانوں نے جو صبر عظیم کیا اور قوت برداشت کا مظاہرہ کیا اور اپنے ایمان کی تصدیق کی، اس کی وجہ سے دونوں خاندانوں کو رفعت درجات اور جزاء حسن اور اجر عظیم ملے۔ چنانچہ کشادگی میں تاخیر کا سبب امتحان، آزمائش اور تحقیق و تمیز تھا تاکہ اہل ایمان اور اہل نفاق میں امتیاز ہو جائے۔ نیز اس لیے بھی تاخیر ہوئی تاکہ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر لیں اور اس ابتلاء سے احسن انداز میں گلو خلاصی ہونے کا سب انتظار کریں ۔ علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے واقعہ افک کی کچھ حکمتیں جیسے اللہ کے ساتھ حسن ظن اور اسی سے
Flag Counter