اسے مجروح کر دیا ہو۔ تو وہ شخص اپنے نفس کو اظہار غضب سے نہیں روک سکتا۔ اگرچہ اس کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں ۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ صفت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں تھی۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جذبات کو کشادہ دلی سے سنا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ ان جذبات کا منبع ہی اتنا نفیس ہے جس کی طرف یہ ذات طاہرہ و صدیقہ رضی اللہ عنہا منسوب ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلنَّاسُ مَادِنٌ)) ’’لوگ کانوں (معدنیات) کی طرح ہوتے ہیں ۔‘‘[1]
جن نکات کا تذکرہ ہم نے گزشتہ صفحات میں کیا، یہ ہماری امی جان کے ذاتی کردار سے ماخوذ ہیں ۔ جو ان کی طہارت و براء ت کے بہترین ثبوت ہیں ۔ اگرچہ انھیں پاک دامن ثابت کرنے کے لیے ان کا ذاتی کردار ہی کافی ہے کہ بہتان تراشوں کے منہ بند ہو جائیں ۔ کجا یہ کہ ان کی براء ت اور ان کی پاک دامنی کے ثبوت کے طور پر قرآن کریم کی مبارک آیات نازل ہوئیں جو تاقیامت لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہوتی رہیں گی اور زبانوں سے جن کی تلاوت ہوتی رہے گی۔
اگر بہتان تراش اور ان کی افواہوں سے متاثر ہو جانے والے لوگ اپنی عقلوں سے ام المؤمنین کی شان کے بارے میں سوچتے اور تدبر و تفکر سے کام لے کر کڑی سے کڑی ملاتے تو ان کی زبان سے پہلے محض ان کی عقل ہی اس بہتان کو باطل کہہ دینے پر مجبور کر دیتی کہ جس بہتان کو ہر سلیم الفطرت مومن نے سنتے ہی باطل کہہ دیا۔ اگرچہ اس بہتان کی مخالفت معصوم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے والی وحی نے بھی کر دی اور پختہ ایمان والے اہل ایمان نے تو سنتے ہی یہ کہہ دیا تھا:
﴿ سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ﴾النور: ۱۶)’’تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔‘‘
ادیب مصر عباس محمود العقاد[2] رحمہ اللہ نے لکھا:
’’کوئی بھی قاری کشادہ ظرفی سے کام لیتے ہوئے ایک ہی نظر میں اس افواہ کے جھوٹا ہونے کا اقرار کر لیتا ہے اور تحقیق کے بعد تو یہ ثابت ہو گیا کہ وہ ایک جھوٹی افواہ تھی۔ کسی بھی منصف مزاج شخص کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اس بہتان کے پس منظر میں سازش کا جال صاف نظر آتا ہے۔ جو دینی و
|