گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحشی رضی اللہ عنہ کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ شاید کہ حمزہ رضی اللہ عنہ یاد آ جائیں کیونکہ ان کی افسوس ناک موت اور مثلے کا آپ کے دل پر گہرا اثر تھا اور جو کچھ واقعہ افک میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اثر ہوا وہ بھی کم نہ تھا۔ جیسا کہ اس کی شدت الم کی خبر واقعہ افک میں بیان کردہ حدیث سے واضح ہے۔[1]
یہ چیز بخوبی معلوم ہے کہ انسان کسی واقعہ کا تذکرہ ایک مدت تک پسند نہیں کرتا، پھر کچھ عرصے بعد دل اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور تعلقات نہایت خوشگوار ہو جاتے ہیں بلکہ احسان کی آخری حد کو چھونے لگتے ہیں اور یہی کچھ سیّدہ عائشہ اور سیّدنا علی رضی ا للہ عنہما کے درمیان حاصل ہوا، ان دونوں کے آخری ایام میں تعلقات باہمی نہایت خوشگوار ہو گئے تھے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ان کے باہمی خوشگوار تعلقات کے ضمن میں گزر چکا ہے۔ (آئندہ صفحات میں جب واقعہ جمل پر بحث کی جائے گی تو وہاں بھی یہ موضوع زیر بحث آئے گا۔)
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ گواہی کافی ہے جو انھوں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے دی کہ جس میں انھوں نے نہ کچھ تبدیلی کی اور نہ وہ خود بدلے اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا لوگوں کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلافت کے لیے بیعت کرنے کا مشورہ دینا اس بات کی کھلی دلیل ہے۔
سوم:.... اگر ابن عباس رضی ا للہ عنہما کا اس خبر میں اجتہاد صحیح ہو تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے صرف نام نہیں لیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ترک جائز پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں : جب اہل و عیال ، بھائیوں اور دوستوں میں ناراضگی ہو تو ایسے میں کسی کا نام نہ لینا جائز ہے۔ مثلاً کھلتے ہوئے چہرے سے نہ ملنا وغیرہ البتہ سلام و کلام ترک کرنا حرام ہے۔[2]
اس روایت پر کلام کرتے ہوئے زرقانی لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ انسانی جبلت کے مطابق پیش آیا۔ جس میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر کوئی ملامت نہیں اور نہ علی رضی اللہ عنہ پر کچھ بوجھ ہے ....۔‘‘ [3]
یہ مسئلہ ہر انسان کے ساتھ لازماً جڑا ہوا ہے حتیٰ کہ ایک ہی خاندان کے افراد کے درمیان مثلاً بھائی
|