Maktaba Wahhabi

503 - 677
’’بے شک اللہ نے تمہارے لیے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے اور اللہ تمھارا مالک ہے اور وہی سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ ‘‘ پھر مصنف نے سب طرق جمع کیے اور اپنی تحقیق اس طرح ختم کی کہ یہ سب اسناد ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں ، لہٰذا احتمال یہی ہے کہ آیت دونوں اسباب میں ایک ساتھ نازل ہوئی ہو۔[1] تو یہ روایات اصل معاملہ واضح کرتی ہیں ، رافضیوں کی من گھڑت ضلالتوں کے شائبہ تک سے پاک ہیں ۔ علاوہ ازیں ان سے وضاحت ہوتی ہے کہ ان سب عبارات اور جملوں اور افعال کے پیچھے بیوی کی اپنے خاوند کے معاملے میں غیرت ہے۔ جیسا کہ تمام عورتوں کی باہمی فطرت ہے۔ حتیٰ کہ عورت سے ایسے اقوال و افعال سرزد ہوتے ہیں جو اس کے لائق نہیں ہوتے اور جنھیں چھوڑنا بہتر ہوتا ہے۔ بہرحال وہ دونوں بیویاں تھیں ، انھیں اپنے خاوند کے معاملہ میں غیرت نے دبوچ لیا اور ان دونوں کے درمیان اتفاق ہو گیا کہ ان میں سے جس کسی کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئیں تو وہ آپ سے استفہامیہ انداز میں کہے گی کہ آپ سے مغافیر کی بو آ رہی ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر[2]کھائی ہے؟ تب اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو نصیحت کرنے کے انداز میں یہ آیات نازل فرمائیں ، تاکہ انھیں اپنے فعل پر ندامت ہو اور اس فعل پر انھیں توبہ کی رغبت دلائی۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا فعل نہیں کرنا چاہیے۔ چونکہ ان دونوں رضی ا للہ عنہما کے دل اس بات کی طرف مائل ہو گئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس بیٹھنا ترک کر دیں ۔ امام بغوی رحمہ اللہ اس آیت ﴿ إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللّٰهِ﴾ (التحریم: ۴) کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’یہ خطاب سیّدہ حفصہ اور سیّدہ عائشہ رضی ا للہ عنہما کو کیا گیا ہے اور اس میں ضمیر غائب سے یک دم ضمیر مخاطب کی طرف اس لیے تبدیل کی گئی ہے تاکہ ان دونوں کے عتاب میں تاکید نظر آئے۔ ﴿ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ﴾ ’’تم دونوں سے ایسا فعل سرزد ہو چکا ہے جس سے توبہ کرنا واجب ہے۔ چونکہ تم دونوں کے اوپر واجب تھا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خلوص دل
Flag Counter