Maktaba Wahhabi

252 - 677
جو مسئلہ تو اپنی ماں سے پوچھ سکتا ہے۔[1] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا صرف فقہ الحدیث و السنۃ اور اس کے مطابق فتویٰ پر ہی اکتفا نہ کرتی تھیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کتاب و سنت سے مسائل مستنبط کرنے کا بھی خصوصی ملکہ عطا کیا تھا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ سعد بن ہشام رحمہ اللہ ان کے پاس آئے اور کہا میں آپ سے تبتل کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انھوں نے فرمایا: ’’تم ایسا ہر گز نہ کرو ، کیا تم نے اللہ عزوجل کا یہ فرمان نہیں سنا: ﴿ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ﴾ (الرعد: ۳۸) ’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے کئی رسول تجھ سے پہلے بھیجے اور ان کے لیے بیویاں اور بچے بنائے۔‘‘ لہٰذا تو تبتل نہ کر۔‘‘[2] سیّدہ صفیہ بنت حیی ام المومنین رضی اللہ عنہا جب حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ سے واپسی کے دن حائضہ ہو گئیں اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ نے فرمایا: ’’کیا اس نے ہمیں روک لیا ہے۔‘‘ کہا گیا وہ طواف افاضہ کر چکی ہیں ۔ تو آپ نے فرمایا: ’’پھر (رکنے کی) ضرورت نہیں ۔‘‘[3] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ استنباط کیا کہ طواف وداع معذور افراد پر واجب نہیں ، تو وہ تمام خواتین جو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حج پر جاتیں وہ اسی حکم پر عمل کرتیں ۔ عمرہ بنت عبدالرحمن کہتی ہیں : ’’ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب حج پر جاتیں اور ان کے ساتھ والی عورتوں کو حیض آنے کا اندیشہ ہوتا تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان کو نحر والے دن (دس ذوالحجہ) کو طواف افاضہ کے لیے بیت اللہ بھیج دیتیں ۔ وہ طواف افاضہ کر لیتیں اور اگر ان کو اس کے بعد حیض آ بھی جاتا تو وہ ان کا انتظار نہ کرتیں بلکہ ان کو ساتھ لے کر مکہ سے نکل جاتیں ۔ حالانکہ چند عورتوں کو حیض شروع ہو
Flag Counter