توانھوں نے دوبارہ جانے سے انکار کر دیا۔
پھر انھوں نے سیّدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ وہ آپ کے پاس آئیں اور نہایت درشت لہجہ میں آپ سے مخاطب ہوئیں ۔ وہ کہنے لگیں : آپ کی بیویاں آپ سے ابن ابی قحافہ کی بیٹی کے معاملے میں اللہ کے واسطے عدل و انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔ اس وقت سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں ۔ چنانچہ سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کے غصے کا رُخ جلد ہی ان کی طرف ہو گیا۔ زینب رضی اللہ عنہا نے انھیں بھی خوب سخت باتیں کہیں ۔ بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف پرامید نگاہوں سے دیکھنے لگے کہ کیا یہ بولتی ہے کہ نہیں ۔ بقول راوی چونکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی لب کشائی کر لی اور ترکی بہ ترکی زینب رضی اللہ عنہا کو ایسے تسلی بخش جواب دئیے کہ انھوں نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی۔ وہ کہتی ہیں تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھا اور فرمایا: ’’آخریہ ابوبکر کی بیٹی ہے۔‘‘ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا۔[1]
جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ محبت کا یہ انداز صحابہ رضی اللہ عنہم کے علم میں تھا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو بھی بخوبی علم تھا۔ اس کی واضح دلیل روزہ دار کے بوسہ لینے کے مسئلہ میں ابی قیس کی روایت ہے۔
ابو قیس سے روایت ہے:
’’مجھے سیّدنا عبداللہ بن عمرو رضی ا للہ عنہما نے ام المؤمنین سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا تاکہ میں ان سے یہ مسئلہ پوچھوں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لیتے تھے؟ اور اگر وہ نفی میں جواب دے تو ان سے کہنا کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں کو بتاتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لیتے تھے۔
بقول راوی میں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے ہوئے بوسہ لیتے تھے؟ انھوں نے نفی میں جواب دیا۔
راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا: بے شک سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں کو بتاتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لیتے تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بوسہ
|