Maktaba Wahhabi

277 - 668
کیوں نہ کر دیا؟ کیا ان کے یہ سب افعال خدا کو پسند تھے؟ اگر پسند تھے تو بقول آپ کے خدا نے شہوت پرستی کو پسند کیا۔ وھو محال۔ پس پادری صاحب کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ انبیا علیہم السلام کا یہ فعل خدا کی مرضی کے عین مطابق تھا۔ وھو الحق۔ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے افعالِ حمیدہ کو شہوت اور عشق سے منسوب کرتے ہوئے انجیل کو نظر انداز کر دیا، جو خدا کے بیٹے کی طرف شہوت، غیر عورتوں کا پیار، عشق اور نفسانیت منسوب کرتی ہے۔ لکھا ہے کہ یسوع مرتھا اور اس کی بہن اور لعزر سے محبت کرتا تھا۔ (یوحنا باب ۱۱ درس ۵) مرتھا اور اس کی بہن دونوں بیگانی عورتیں تھیں ، جن سے محبت رکھنا صاف صریح عشق ہے۔ پھر ایک بدچلن عورت کا یسوع کے پاؤں پر سنگ مر مر کی عطردانی سے عطر ڈالنے کا ذکر ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے: یسوع نے شمعون سے کہا: تو اس عورت کو دیکھتا ہے۔ میں تیرے گھر میں آیا تو نے میرے پاؤں دھونے کو پانی نہ دیا، مگر اس نے میرے پاؤں آنسو سے بھگوئے اور اپنے بالوں سے پونچھے۔ تو نے مجھ کو بوسہ نہ دیا، مگر اس نے جب سے میں آیا ہوں ، میرے پاؤں کا چومنا نہ چھوڑا۔ تو نے میرے سر میں تیل نہ ڈالا، مگر اس نے میرے پاؤں پر عطر ڈالا ہے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اس کے گناہ جو بہت تھے، معاف ہوئے، کیونکہ اس نے بہت محنت کی، مگر اس نے عورت سے کہا: تیرے ایمان نے تجھے بچا لیا، سلامت چلی جا۔ (لوقا باب ۷ درس ۳۶ سے باب ۸ تک) اب بتلائیے کہ بد چلن فاحشہ عورت سے آنسوؤں کے ساتھ پاؤں کو دھلوانا اور اس کے بالوں سے صاف کروانا اور اس کی بوسہ بازی سے مزہ اٹھانا اور علانیہ شوق سے محبت کا اظہار کرنا، صاف عشق، شہوت پرستی اور نفسانیت نہیں تو اور کیا ہے؟ جو کسی محرف نے خدا کے بیٹے کی طرف منسوب کی ہے۔ لطف یہ کہ ان تمام حرام افعال کو گناہ کی معافی کا موجب اور اظہارِ ایمان قرار دیا گیا ہے۔ برعکس اس کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت اور پاکدامنی کو دیکھو، جن کے متعلق صحیح بخاری میں ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی غیر محرم عورت کو چھوا تک نہیں ۔[1]اگر اب بھی مخالفین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر طعن کرنے سے باز نہ آئیں تو کیا یہ صریح ظلم اور انصاف کے ساتھ عداوت رکھنا نہیں تو اور کیا ہے؟
Flag Counter