Maktaba Wahhabi

502 - 668
پنجم: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن جمع کرانے کے بعد اصل مسودۂ قرآن، جس کو سیدنا ابو بکر صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جمع کیا تھ، دوبارہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو واپس بھیج دیا اور اس کے سوا باقی جتنے قرآن کے وہ نسخے تھے جن میں تفسیری اور تشریحی الفاظ موجود تھے، اُن کو جلانے کا حکم دے دیا، تاکہ وہ تفسیری الفاظ، جو قرآن کے ساتھ ہی درج ہیں ، قرآن سے الگ ہو جائیں ۔ ایک اعتراض کا جواب: یہاں صاحبِ ’’میزان الحق‘‘ نے ایک اعتراض کیا ہے کہ خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے نسخے کے سوائے قرآن کے تمام چھوٹے بڑے نسخوں کو جلانے کا حکم نافذ کیا۔ (میزان الحق) تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا والا قرآن ہی تو اصل اور خالص قرآن تھا، جس کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متفرق نوشتوں پر لکھوایا تھا۔ پھر ان ہی نوشتوں کو اکٹھا کر کے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کو جمع کیا تھا، جس قرآن سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نقل کرانے کے بعد سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو واپس بھیج دیا۔ پس ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قطعاً کوئی قرآن نہیں جلایا، بلکہ ان مسودوں کو شعلۂ نار کے سپرد کیا جن میں تفسیری الفاظ تھے۔ پس نتیجہ صاف کہ سیدنا عثمان نے تشریحی الفاظ کو جلایا، تا کہ قرآن اور غیر قرآن میں اختلاف نہ ہونے پائے۔ پھر یہ عمل بھی ان کا عین تعلیمِ رسول کے موافق ہے، جیسا کہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے سوائے قرآن کے اور کچھ نہ لکھا کرو اور جس نے لکھا بھی ہے وہ اسے مٹا دے۔ (مسلم جلد۲، باب حکم کتا بۃ العلم) [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ کہ مجھ سے سوائے قرآن کے اور کچھ نہ لکھا کرو، ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکم ان کاتبانِ وحی کو تھا جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو لکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے نوشتوں میں سوائے خالص قرآنی عبارت کے اور ذرہ بھر بھی کوئی عبارت نہ تھی۔ امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ حکم صرف قرآن لکھتے وقت تھا۔ جب قرآن مکمل ہو گیا تو پھر
Flag Counter