Maktaba Wahhabi

342 - 668
سیرت: عبادتِ الٰہی کا نیا طریق۔ (صفحہ: ۲۹۲) بصیرت: اس حدیث کے ترجمے میں بھی پنڈت جی نے اپنی عادت کے مطابق خیانت کی ہے۔ کذب اور خیانت سے تو ان کو نیوگ کی طرح محبت ہے۔ صدق و دیانت سے ایسے دور بھاگ جاتے ہیں ، جیسے ان کو گائے کے گوشت سے نفرت ہے۔ اعتراض پیدا کرنے کے لیے جو انھوں نے عنوان قائم کیا ہے وہ حدیث سے ایسا اجنبی ہے کہ اس کو اس سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ ہم اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہیں جس سے پنڈت جی کی خیانت بھی ظاہر ہو گی اور اعتراض بھی باطل ہو جائے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پاؤں پھیلائے ہوئے ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے۔ یعنی تہجد کی نماز کے وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرنے لگتے تو مجھے چونکا، یعنی چھوٹی سی چوٹ لگاتے تو میں پاؤں سمیٹ لیتی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو جاتے تو میں اپنے پاؤں لمبے کر لیتی۔ (بخاري کتاب الصلاۃ۔ باب الصلاۃ علی الفراش۔ مسلم باب قیام اللیل) [1] بخاری میں اس کے ساتھ ہی باب ہے: صلاۃ الرجل خلف المرئ،ۃ۔ اس میں یہ جملہ بھی موجود ہے کہ ان دنوں میں ہمارے گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔ اس جملے کو پندٹ جی نے اس لیے نظر انداز کر دیا تا کہ یہ ثابت ہو جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم روشنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو نماز پڑھتے وقت اپنے آگے لٹا لیتے اور پھر ان کو ہاتھ لگاتے، حالانکہ یہ بالکل غلط اور باطل ہے۔ یہ اتفاقی امر کبھی کبھی اندھیرے کی و جہ سے ہو جایا کرتا تھا۔ عمداً اور قصداً نہیں ۔ پنڈت جی نے ’’غمزہ‘‘ کے معنی ہاتھ لگانے کے کیے ہیں ، اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پیار کی و جہ سے ہاتھ لگایا کرتے تھے۔ حالانکہ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مرد بہ وقتِ صحبت اپنی منکوحہ کو جیسے ہاتھ لگاتا ہے، بلکہ اس کے معنی چوٹ مارنے کے ہیں جو اس کے صریح خلاف ہے۔ بوقتِ صحبت عورت کو ہاتھ لگانے کو لغتِ عرب میں لمس اور مس کہا جاتا ہے۔ بخلاف غمزہ کے کہ جس کے معنی چوٹ لگانے کے ہیں ۔ جس میں ناراضی پائی جاتی ہے۔ پنڈت جی کے نئے طریق کا
Flag Counter