Maktaba Wahhabi

119 - 668
قرآنِ مجید خدا کا لفظی اور معجزانہ کلام ہونے کی و جہ سے بے مثل ہے اور حدیث میں یہ وصف پائے نہیں جاتے۔ پس جب قرآن کا حدیث پر فائق و برتر ہونا ذہن نشین ہو چکا ہے تو اس امر کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فخرِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت نبی اور رسول ہونے کے خصوصیاتِ مفضلہ کے علاوہ تمام انبیا علیہم السلام کے برابر ہیں ۔ پس بموجب اس کے جس طرح ان کو نام سے خطاب کیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس سے حصہ ملنا چاہیے تھا۔ خدا نے وہ خطاب جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے نبیوں کے برابر کرتا تھا، اس کو حدیث میں جگہ دے دی اور دوسرا خصوصیت کا مذکورہ بالا خطاب جو اوصاف کے ساتھ کیا گیا ہے، اس کو قرآن میں ، جو اعلیٰ درجے کی وحی ہے، جگہ دے دی اور موزوں بھی یہی تھا کہ افضل صفت کو فائق تر وحی میں جگہ دی جائے۔ خدا تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و عادات اور لباس وغیرہ کے احترام و تکریم میں فرماتا ہے: اکیسویں آیت: عاداتِ مبارکہ کا تذکرہ: ﴿یٰٓاََیُّھَا الْمُزَّمِّلُ * قُمِ الَّیْلَ اِِلَّا قَلِیْلًا﴾ [المزمل : ۱۔ ۲] ’’اے کپڑے اوڑھنے والے رات کو اٹھ۔‘‘ تفسیر ابن کثیر اور جامع البیان میں اس آیت کے لفظ مزمل کے معنوں میں نائم و متحمل قرآن بھی لکھا ہے۔[1] پس معنی یہ ہوئے کہ اے کپڑے اوڑھنے والے، سونے والے، قرآن کے حافظ و قاری۔ سورت مزمل سے پہلے جتنا قرآن نازل ہو چکا تھا، وہ تو یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حفظ بھی تھا اور پڑھا بھی کرتے تھے، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ﴿یٰٓاََیُّھَا الْمُزَّمِّلُ﴾ کی وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں کپڑا پہن کر سوئے ہوئے تھے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے : ﴿یٰٓاََیُّھَا الْمُدَّثِّر﴾ [المدثر : ۱] ’’اے لابس الدثار، یعنی اے لباس پہننے والے۔‘‘ ’’دثار‘‘ اس لباس کو کہتے ہیں جو بالوں پر پہنا جائے اور جسم پر بھی لگے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس، نیند اور عاداتِ مبارکہ خدا کے نزدیک اعلیٰ مقام اور بلند پایہ نہ رکھتے ہوتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوقتِ وحی ان حالات سے مخاطب ہی نہ کرتا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارفع درجات ہونے کی شہادت دیتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے ساتھ بڑے بڑے اہم امور میں تبدیلی بھی کی گئی۔
Flag Counter