Maktaba Wahhabi

394 - 668
رسالہ سیرت المسیح علیہ السلام و محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی ماندہ اعتراضات اور ان کے جوابات سیرت: رخِ نماز کی نسبت کئی تبدیلیاں ہوئیں ۔ دیکھو ایک مرتبہ کہا کہ اللہ کی ہے مشرق اور مغرب، جس طرف منہ کرو، وہاں متوجہ ہے اللہ۔ (سورۃ بقرۃ ع ۱۴ آیت ۱۱۵) بصیرت: یہ بھی آپ کے فہم کا قصور ہے۔ آیت میں ایک مرتبہ بھی تبدیلیِ قبلہ کا ذکر تک نہیں پایا جاتا۔ اس کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب انسان سفر میں سواری پر ہو تو نفلی نماز سواری پر بھی ادا کر سکتا ہے۔ خواہ اس حالت میں نمازی کا منہ سواری کے پھر جانے سے قبلے کی طرف سے پھر کر دوسری طرف ہو جائے ۔ تا ہم نفلی نماز ادا ہو جاتی ہے۔ (ترمذي جلد نمبر۲ کتاب التفسیر) [1] سیرت: پھر اس سورت کے رکوع سترہ (۱۷) میں آپ کی بے قراری کا حال پایا جاتا ہے۔ اس تبدیلی کا سبب یہ تھا کہ یہودیوں کی طرف سے آپ کو امید منقطع ہوئی۔ خود میلان جو ان کے قبلہ، یعنی یوروشلم کی طرف تھا، اس طرف سے ہٹ کر عربوں کے قبلہ، یعنی مکہ کی طرف غالب ہوا۔ قرآن خود کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس امر میں چکرا رہے ہیں ۔ کبھی ا دھر کبھی ادھر۔ غرض یہ کہ یہودیوں کی خاطر یوں تھا اور عربوں کی خاطر کچھ اور ہو گیا۔ (ص:۲۹) بصیرت: پادری صاحب نے اس ترجمے میں خیانت سے کام لیا اور اس کا مطلب بھی نہیں سمجھا۔ قرآنِ مجید بیان کرتا ہے کہ قبلے کی تبدیلی کی دو وجہ ہیں : اول یہ کہ لوگوں کی آزمایش مقصود تھی۔ بہت سے لوگ
Flag Counter