Maktaba Wahhabi

542 - 668
چند مقامات کا ذکر: اب ہم یہاں ان مقامات کا ذکر کرنا بھی نہایت ضروری سمجھتے ہیں ، جن کو معرضِ استدلال میں پیش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ عزرا کی کتاب باب (۷) آیت (۶)میں لکھا ہے: ’’یہی عزرا بابل سے گیا اور وہ موسیٰ کی شریعت میں ، جسے خداوند اسرائیل کے خدا نے دیا تھا، ماہر فقیہ تھا۔‘‘ حالانکہ ماہر اور فقیہ ہونے سے یہ ہر گز ضروری اور لازم نہیں آتا کہ عزرا مروجہ تورات کا کاتب تھا۔ پھر ایک حوالہ نحمیاہ نبی کی کتاب کا پیش کیا جاتا ہے، دیکھو نحمیاہ (باب ۸، آیت ۱ تا ۳) میں لکھا ہے: ’’موسیٰ کی شریعت کی کتاب کو جس کا خداوند نے اسرائیل کو حکم دیا تھا لائے ۔۔۔ الخ‘‘ ’’عزرا کاہن تورات کو جماعت کے، یعنی مردوں اور عورتوں اور ان سب کے سامنے لے آیا جو سن کر سمجھ سکتے تھے ۔۔۔ الخ۔‘‘ اور ’’جو سمجھ سکتے تھے ان کے سامنے پڑھتا رہا اور سب لوگ شریعت کی کتاب پر کان لگائے رہے ۔۔۔ الخ۔‘‘ اور عزرا نے سب لوگوں کے سامنے کتاب کھولی۔‘‘ ان متعدد آیتوں سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ عزرا نبی کے پاس وہ تورات تھی جس کو خداوند نے موسیٰ کی معرفت دیا تھا اور وہ تورات وہی ہے جس کو موسیٰ نے اپنی زندگی ہی میں مکمل کر کے لکھا تھا، لیکن عزرا کے پاس ہونے سے یہ ہر گز لازم نہیں آتا کہ عزرا نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ اس کے بر عکس موجودہ تورات نہ تو یہ عزرا کو وصول ہوئی اور نہ اس نے اسے لکھا، کیونکہ یہ خود عزرا کی بھی تاریخ ہے۔ پھر اس بے بنیاد دعوے پر ایک اور طریق سے نقض وارد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ استثنا کی کتاب کا حوالہ اس سے پہلے اوپر گزر چکا ہے کہ حضرت موسیٰ نے مکمل طور پر شریعت، یعنی تورات کو لکھا، پس جب خدا ایک نبی سے کتاب کو پوری پوری اور مکمل لکھا چکا تھا تو اس کے بعد وہی خدا کسی دوسرے نبی سے اس کتاب میں کس طرح زائد عبارتیں درج کرا سکتا ہے؟ اگر خدا نے ایسا کرایا بھی تو خدا کی تکمیل کی ہوئی کتاب کا بطلان لازم آتا ہے، حالانکہ یہ امر محال ہے۔ یہ موجودہ بائبل کی سند کی تحقیق اس کی اندرونی شہادت سے کی گئی ہے، جس سے اہلِ علم حضرات کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ یہ ساری کی ساری بائبل تحقیق کے کسی معیار پر بھی پوری نہیں اترتی اور ہمارے دوستوں نے اس کو محض عقیدت کی بنا پر اپنے سینے سے چمٹا رکھا ہے، حالانکہ اس میں کوئی ایک
Flag Counter