Maktaba Wahhabi

373 - 668
گنجایش نہیں کھا سکتا۔ اسلام میں تو پیغمبر کو بھی اپنی طرف سے حلال حرام قائم کرنے کی طاقت نہیں ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میں حلال کو حرام نہیں بنا سکتا اور اس کے برعکس حرام کو حلال نہیں کر سکتا۔ (مسلم) یعنی حلال حرام کرنا خدا ہی کا کام ہے۔ سیرت: ہم صرف صلبی و رضاعی رشتوں کا خیال کریں اور اخلاقی رشتوں کو بالکل نظر انداز کر دیں ۔ اگر ایسا ہی روا ہو تو میں اپنے مسلمان دوستوں سے پوچھ سکتا ہوں کہ اپنی حقیقی والدہ کو چھوڑ کر باقی عورتوں کی حرمت جو ان کے باپ کی کسی وقت منکوحہ رہ چکی ہوں ، عقلی طور پر کیونکر ثا بت ہوتی ہے؟ اور خوش دامن کے ساتھ نکاح کرنا کیوں حرام ہے؟ بصیرت: پنڈت جی! آپ کے مسلمان دوست آپ کو بتلا سکتے ہیں کہ صلب و نسب دو قسم کا ہوتا ہے: ایک بلا واسطہ، جیسا کہ ماں ، بہن اور بیٹی وغیرہ اور دوسرا بالواسطہ، یعنی کسی واسطے کے سبب سے اس کو نسب میں داخل کیا جاتا ہے، جیسا کہ آپ کے سوال میں سوتیلی ماں جو باپ کے نکاح میں آنے کی وجہ سے نسب میں داخل ہو چکی۔ انسان کی سگی والدہ اور سوتیلی ماں باپ کی زوجیت میں آنے کی و جہ سے یکساں و برابر ہیں ، اسی و جہ سے اس کو بھی سگی ماں کی طرح حرام سمجھا گیا ہے۔ فافہم دوسرا سوال: خوش دامن (ساس) کے متعلق ہے، سو وہ بھی عورت کے نکاح میں آنے کی و جہ سے رشتے داری میں داخل ہو کر ماں کی طرح حرام ہوئی۔ چونکہ انسان عورت سے نکاح کرتا ہے تو اس کی ماں جس کے پیٹ سے وہ عورت پیدا ہوئی، اگر اس کی ماں سے بھی نکاح کیا جائے تو ساس اور عورت میں مساوات ٹھہری، حالانکہ ماں اور بیٹی میں زمین و آسمان کا فرق ہے، جس سے فطرتاً شرم کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے عقل اور شریعت نے خوش دامن (ساس) کو بھی ماں کی طرح حرام بتایا، کیونکہ سوتیلی ماں اور خوش دامن بالواسطہ رشتے داری میں داخل ہیں ۔ لہٰذا ان کو اخلاقی طور پر متبنیٰ کی بیوی پر قیاس کر کے مسلمانوں پر الزام قائم کرنا، محض جہالت اور بد حواسی ہے۔ میں پیارے پنڈت جی اور
Flag Counter