Maktaba Wahhabi

537 - 668
موسیٰ سے لے کر سموئیل کے زمانے تک بنی اسرائیل میں کوئی بادشاہ نہیں ہوا۔ تو اب صاف طور پر ظاہر ہو گیا کہ یہ کتاب پیدایش سموئیل کے بنی اسرائیل میں بادشاہ مقرر کرنے کے بعد تصنیف ہوئی۔ پھر اس کے بعد بائبل میں خروج کی کتاب جو حضرت موسیٰ کی طرف منسوب کی جاتی ہے، اس کے باب ۱۶ آیت ۳۵ میں لکھا ہوا ہے کہ بنی اسرائیل جب تک آباد ملک میں نہ آئے، یعنی چالیس برس تک من کھاتے رہے۔ الغرض جب تک وہ ملک کنعان کی حدود تک نہ آئے، من کھاتے رہے اور ایک اومر ایفہ کا دسواں حصہ ہے۔ اگر بائبل کی مندرجہ بالا عبارت کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ خروج کی کتاب حضرت موسیٰ کی لکھی ہوئی ہر گز نہیں ہے اور نہ آپ نے اس کو تصنیف کیا ہے، بلکہ یہ کتاب تو اس وقت لکھی گئی جب بنی اسرائیل کنعان میں پہنچ چکے تھے اور بنی اسرائیل کا کنعان میں پہنچنے کا واقعہ حضرت موسیٰ کی زندگی میں ہر گز نہیں ہوا، بلکہ حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد یہ واقعہ یشوع بن نون کے زمانے کا واقعہ ہے۔ دیکھو یشوع (باب ۵، آیت ۱۰ تا ۱۲) میں لکھا ہوا ہے: اور بنی اسرائیل نے جلجال میں ڈیرے ڈال لیے اور انھوں نے یریحو کے میدانوں میں اسی مہینے کی چودھویں تاریخ کو شام کے وقت عید فسخ منائی اور عید فسخ کے دوسرے دن اس ملک کے پرانے اناج کی بے خمیری روٹیاں اور اسی روز بھنی ہوئی بالیں بھی کھائیں اور دوسرے ہی دن سے ان کے اس ملک کے پرانے اناج کے کھانے کے بعد من موقوف ہو گیا اور آگے پھر بنی اسرائیل کو من کبھی نہ ملا اور ایفہ کا وزن حضرت موسیٰ کے زمانے سے بعد میں نکلا۔ حضرت موسیٰ کی تصنیف نہیں : پھر اس کے بعد احبار کی کتاب ہے اور یہ بھی حضرت موسیٰ کی طرف منسوب کی جاتی ہے، حالانکہ اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب ہر گز حضرت موسیٰ نے تصنیف نہیں کی۔ چنانچہ اس کتاب کے شروع میں لکھا ہے: ’’اور خداوند نے خیمۂ اجتماع میں سے موسیٰ کو بلا کر اس سے کہا۔‘‘ پھر اس کتاب کے بالکل آخر میں لکھا ہے: ’’جو احکام خداوند نے کوہِ سینا پر بنی اسرائیل کے لیے موسیٰ کو دیے وہ یہی ہیں ۔‘‘
Flag Counter