Maktaba Wahhabi

496 - 668
دوسری بات: جو قرآن نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھایا تھا، وہ خالص قرآن تھا، یعنی اس میں کوئی تفسیری الفاظ نہ تھے اور وہ بصورت کتاب بھی نہ تھا، بلکہ اس کے اجزا متفرق طور پر صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس محفوظ تھے اور پھر جب ان اجزا کو لے کر پورا قرآن جمع کیا گیا تو حفاظ کی زندگی ہی میں کیا گیا۔ یہ قدرتی اور مضبوط انتظام صرف قرآن ہی کو نصیب ہوا ہے، اس کے علاوہ دنیا کی کسی کتاب کو نصیب نہیں ہوا۔ تیسری بات: جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قرآن کے جمع کرنے کی ترغیب دی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر یہ اعتراض کیا کہ اس کام کا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا کے خلاف اور بدعت ہے، تو جواب میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خدا کی قسم یہ کارِ خیر ہے، لیکن اس جواب سے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ مطمئن نہ ہوئے۔ بالآخر دونوں میں بصورتِ مناظرہ، یعنی سوال و جواب کی صورت میں گفتگو ہوئی، یہاں تک کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو انشراحِ صدر، یعنی خدا کی طرف سے الہام (القا) ہوا کہ قرآن کو جمع کرنا بدعت نہیں ۔ اگر اس اِلقا سے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اطمینان قلبی نصیب نہ ہوتا تو ہر گز قرآن جمع کرنے کا حکم نہ دیتے۔ پھر اسی طرح سیدنا ابو بکر اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے درمیان بھی بحث ہوئی، یہاں تک کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بھی قدرت نے سینہ کھول دیا۔ پھر سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم تینوں حضرات کو متفقہ طور پر الہام (القا) ہوتا ہے کہ قرآن کا جمع کرنا خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے عین مطابق ہے۔ ان کو اس بات کا بھی پتا چل گیا کہ جمع قرآن کے دلائل قرآن اور حدیث میں مذکور ہیں ، جیسا کہ اس سے پہلے گزر چکا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ قرآن کا جمع کرنا محض اجتہادی طور پر نہیں ہوا ہے، بلکہ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کو انجام دیا گیا ہے۔ پھر یہ بات بھی یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نبی تو ہر گز نہ تھے، لیکن بتائید روح القدوس یقینا ممتاز تھے، جیسا کہ قرآن مجید سورت مجادلہ رکوع۲ میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اپنی طرف سے روح القدس کے ساتھ تائید کی۔
Flag Counter