Maktaba Wahhabi

484 - 668
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خاص قرآنی نسخے ہی پر اطلاق کیا جاتا تھا، جیسا کہ مسند ابو یعلی میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے جس نے دونوں تختیوں میں قرآن کو جمع کیا، وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔[1] (تاریخ الخلفاء ذکر جمع القرآن) سب سے پہلے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نوشتوں ہی سے نقل کر کے خالص اور مکمل قرآن کو مابین اللوحین جلد کرایا تھا۔ چونکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا نسخہ بھی بعینہٖ اسی سے نقل کیا گیا تھا اور یہ امر مسلمہ ہے کہ جو نقل اصل کے مطابق ہو، وہ بھی اُسی کے حکم میں ہوتی ہے، اس طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا نقل کردہ قرآن بھی بین اللوحین کہلایا۔ چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما اور تابعین میں سے محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد سوائے اس کے جو دونوں تختیوں میں ہے، کچھ نہیں چھوڑا۔ (بخاري، کتاب التفسیر، باب مابین الدفتین) [2] اور پھر سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما تو صحابی تھے۔ جن کا قول خلفاے ثلاثہ کے قرآن میں شامل ہے۔ بخلاف محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کے کہ انھوں نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا جمع کردہ قرآن تو بچشمِ خود دیکھا ہی نہیں تھا۔ پس لا محالہ وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے جمع کردہ قرآن کو مابین الدفتین فرماتے ہیں ، اس سے صاحبِ تاویل القرآن کا وہ دعوی بھی باطل ہوا جو انھوں نے کیا ہے کہ مابین الدفتین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا وہ صحیفہ تھا جو انھوں نے اپنی تلوار کے میان میں داخل کر رکھا تھا، حالانکہ خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کی مخالفت کرتے ہوئے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے جمع کردہ قرآن کو مابین اللوحین کہہ رہے ہیں ۔ کم علمی کی دلیل: علاوہ ازیں جو صحیفہ لپیٹ کر تلوار کے میان میں داخل کیا جائے، اس کو ما بین الدفتین کہنا اس لیے بھی کم علمی کی دلیل ہے کہ تلوار کا میان کوئی دو گتے تو ہیں نہیں کہ جن کے درمیان آکر وہ مجلد ہوا۔ حالانکہ ہم ما بین الدفتین کی تشریح میں عرض کر چکے ہیں کہ لفظ ما بین الدفتین کا اطلاق دو گتوں میں مجلد چیز پر ہوتا ہے۔
Flag Counter