Maktaba Wahhabi

98 - 668
سراجاً منیراً مسئلہ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیق پندرھویں آیت: ﴿یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا * وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا﴾ [الأحزاب : ۴۵۔ ۴۶] ’’مُنِیْر‘‘ باب ِافعال سے اسم فاعل کا صیغہ ہے، جس کے معنی روشن کرنے والے کے ہیں ۔ وہ چیز جو خود نورانیت رکھنے کے علاوہ دوسر ی چیز کو بھی روشن کرے اس کو منیر کہا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں چونکہ یہ چیز بہت زیادہ تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صفت سے موصوف کیا گیا۔ قرآن میں منیر چاند کی صفت بیان کی گئی ہے: ﴿وَقَمَرًا مُّنِیْرًا﴾ [سورۃ الفرقان: ۶۱] اور سراج سورج کو فرمایا گیا ہے: ﴿وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا﴾ [سورت نوح : ۱۶] ’’یعنی آسمانوں میں اللہ نے چاند کو روشن کرنے والا بنایا ہے اور سورج کو چراغ پیدا کیا۔‘‘ پس آیت مذکور کے معنی یہ ہوئے: ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے شک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ اور مومنوں کو خوشخبری دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا اور لوگوں کو اللہ کے اذن سے اس کی طرف بلانے والا اور چراغ روشن کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ قرآن مجید نے سراج کا لفظ بجز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی دوسرے کے حق میں استعمال نہیں کیا۔ یہ بڑی رفیع القدر اور شاندار فضیلت ہے۔ سراج منیر کے معنوں میں سے اول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن دیا گیا اور اس کو اللہ نے جابجا نور سے تعبیر فرمایا: ﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا﴾ [سورۃ النساء : ۱۷۴] ’’اے لوگو! ہم نے تمھاری طرف نور ظاہر نازل کیا ہے۔‘‘
Flag Counter