Maktaba Wahhabi

123 - 668
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد میں ہی حج شروع ہوا۔ (دیکھو سورہ حج: ۲۷) لیکن جب بیت المقدس کو تعمیر کرا کر کعبے کو قبلہ مقرر کیا گیا تو مکے اور کعبے کی وہ قدیم فضیلت لوگوں کے دلوں سے اٹھ گئی، کیونکہ قبلے کا بڑا شان ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے بیت المقدس کو منسوخ کرا کر کعبے کو قبلہ مقرر کیا گیا تو اس کی قدیم فضیلت کو، جو زائل ہو چکی تھی، دوبارہ فروغ ہوا۔ پس مکے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے سبب عالی مرتبہ حاصل ہوا۔ اعتراض: اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو معراج کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں نہ مکے ہی سے آسمان کی طرف اٹھایا گیا، کیوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو براق پر سوار کر کے بیت المقدس پہنچایا گیا؟ پھر وہاں سے آسمان کی طرف اٹھائے گئے، اس سے ظاہر ہے کہ مسجد اقصیٰ کو کعبے پر شرف حاصل ہے۔ جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمانی معراج مکے میں ہجرت سے پہلے وقوع پذیر ہوا اور اس وقت بیت اللہ قبلہ نہ تھا۔ قبلہ تو ہجرت کے بعد مقرر کیا گیا، جیسا کہ ابھی ثابت ہو چکا ہے۔ بیت المقدس کی طرف لے جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے آسمان پر چڑھایا گیا کہ اس عہد میں وہ انبیا علیہم السلام اور ان کی امتوں کا قبلہ تھا اور قبلے کو غیر قبلے پر بڑا مرتبہ ہوتا ہے۔ اگر کعبہ اس عہد میں قبلہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں ہی سے آسمان پر چڑھایا جاتا۔ فافھم دوسرا درجہ مدینہ منورہ کا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دارالہجرت ہے۔ وہاں بھی مکہ کی طرح قرآن وحدیث نازل ہوتا رہا، پھر وہ مکے کی طرح حرم بھی ہے، جیسا کہ اکثر احادیثِ صحیحہ میں اس کے حرم ہونے کا صاف صاف ذکر ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے لیے برکت کی دعابھی فرمائی، [1] نیز یہ بھی فرمایا کہ جو شخص مدینہ منورہ میں تکلیف اور مصیبتیں برداشت کرتا ہوا زندگی بسر کرے گا، قیامت کے دن میں اس کی گواہی دوں گا اور سفارش بھی کروں گا۔[2] یہ تمام احادیثِ صحیحہ، صحاح ستہ کی روایات، مشکاۃ کے باب حرم المدینہ میں مذکور ہیں ۔
Flag Counter