Maktaba Wahhabi

343 - 668
استدلال باطل ہوا۔ نیز زیرِ بحث حدیث سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلی خوبی اور احسن فعل بھی ثابت ہوتا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ رات کو بیوی کے موجود ہوتے ہوئے بستر کو چھوڑ کر تہجد کی نماز ادا کرنا یا یوں کہو کہ نو بیویوں کا خاوند ہو کر رات کو ان سے توجہ پھیر کر خدا تعالیٰ کی عبادت میں شغل حاصل کرنا اور اتنا لمبا قیام کرنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر ورم آ جایا کرتا تھا اور یہ نماز آپ کا ہمیشہ کا فعل تھا جس سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ضبطِ نفس پر قادر ہونا، زہد و عبادت کی کثرت سے خدا کی بارگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کیا پنڈت جی اپنے رشیوں میں سے کسی کی ایسی مثال پیش کر سکتے ہیں ، ہر گز نہیں ۔ انھوں نے اپنی کتاب کے صفحہ ۳۳۳ میں بہ عنوان ’’ملہمین وید کی زندگی‘‘ میں کچھ خاک چھانی ہے۔ طول کلامی اور مبالغہ آمیز الفاظ سے کام لیا ہے کہ وہ ایسے تھے اور ان کی زندگی ایسی تھی، شاید وہ ایسے ہوں گے، ہمیں اس سے بحث نہیں ۔ لیکن ہم الزاماً جو منترِ وید ذکر کر رہے ہیں جن سے شرم و حیا کا پردہ پھٹ جاتا ہے اور عصمت و عفت کو آگ لگ جاتی ہے۔ اگر رشیوں پر ان منتروں کا الہام ہوا، تو ان کی زندگی کے حالات بھی یقینا ان کے مطابق ہی ہوں گے۔ سیرت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیاں ۔ (صفحہ: ۲۹۲) بصیرت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی اور میری ہم جولیاں بھی میرے ساتھ کھیلتی تھیں اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوتے تو وہ حیا کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپ جاتی تھیں ، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو میری طرف بھیج دیتے، پس وہ میرے ساتھ کھیلتی تھیں ۔ (بخاری و مسلم) [1] دوسری حدیث: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنگِ تبوک یا حنین سے واپس تشریف لائے اور اس کی چھوٹی سی کوٹھڑی میں ایک پردہ تھا۔ پس ہوا تیز چلی اور پردہ دور ہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیاں ظاہر ہو گئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! یہ کیا ہے؟ صدیقہ رضی اللہ عنہا
Flag Counter