Maktaba Wahhabi

326 - 668
کہ جب تک لڑکا اور لڑکی سنِ بلوغت کو نہ پہنچ جائیں ، اس وقت تک ان کی شادی نہ کرنا چاہیے۔ اس بدقسمت ہندوستان کو بچپن کی شادی سے جو نقصان پہنچا ہے، اس سے کوئی بھی مدبرِ وقت بے خبر نہیں ہے۔ (صفحہ: ۳۰۴، ۳۰۵) بصیرت: صغرِسنی کی شادی اگر بقول آپ کے مضرت رساں ہے اور طب اور قانون دونوں اس پر نالاں ہیں ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آپ کے سوامی جی کے استاد منوجی کا اس میں سخت قصور ہے کہ انھوں نے نابالغ لڑکی کی شادی کی اجازت دی اور آٹھ سالہ لڑکی کو، جو بقول آپ کے نابالغہ ہے، چوبیس سال کے جوان کے حوالے کر دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ پنڈت جی کو سوامی اور منوجی دونوں سے زیادہ علم ہے۔ اس طعن سے انھوں نے اسلام کی مخالفت تو کر دی، لیکن اپنے مذہب کو بھی بیخ و بنیاد سے اکھاڑ کر رکھ دیا۔ ان کے تمام مطاعن کا نزلہ ان کے رشیوں پر گرتا ہے جنھوں نے نابالغ لڑکی کی شادی کو مباح قرار دیا۔ طب اور قانون کی آڑ لے کر پنڈت جی نے اپنے مذہب کی سخت مخالفت کی۔ بخلاف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ کی رخصتی اس وقت ہوئی جب وہ بالغہ تھیں ۔ رہا یہ شبہہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ۵۵ اور ۵۶ سال کو پہنچ چکے تھے۔ اور عالمِ شباب سے تجاوز کر چکے تھے، تا ہم آپ قوی اور طاقتور تھے، جیسا کہ یہ اعتراف پنڈت جی کو بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس، بلکہ چالیس مردوں کی طاقت دی گئی تھی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عالمِ شباب سے تجاوز کر جانا طاقت اور رجولیت کی نفی نہیں کر سکتا۔ علاوہ ازیں حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ضعف کی کبھی شکایت تک نہیں کی۔ اور یہ ظاہر ہے کہ چھوٹی عمر کی بیوی اور بڑی عمر کا مرد جب باہم محبت سے زندگی بسر کریں تو سمجھ لینا چاہیے کہ مرد طاقتور اور قوی ہے۔ اگر دونوں میں ناچاکی اور بگاڑ پیدا ہو تو یقینا مرد میں ضعف ہوتا ہے۔ جیسا کہ دنیا کے مشاہدات اور واقعات اس پر شاہد ہیں ۔ اس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت کا ایک اور ثبوت پیش کیا جاتا ہے۔ طرفہ یہ کہ پنڈت جی نے بھی اس واقعے کو ۲۹۲ صفحہ میں نقل کیا ہے، لیکن لاعلمی کی و جہ سے اس کے سمجھنے سے قاصر رہے۔
Flag Counter