Maktaba Wahhabi

117 - 668
بیسویں آیت: نام کے بجائے وصف سے پکارنا: ﴿یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْک﴾ [المائدۃ: ۶۷] یعنی اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتا ہے کہ اے رسول! جو کچھ خدا نے آپ کی طرف اُتارا ہے، وہ پہنچا دو۔ قرآن مجید میں خدا تعالیٰ کا دستور ہے کہ اگر وہ انبیا علیہم السلام میں سے کسی کو مخاطب کرے تو اس کو اس کے اسم، یعنی نام لے کر پکارتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ﴿یٰٓاٰ دَمُ اسْکُنْ﴾ [البقرۃ: ۳۵] ’’آدم ٹھہر جا۔‘‘ ﴿یٰنُوْحُ اھْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا﴾ [ھود : ۴۸] ’’اے نوح ! ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اتر جا۔‘‘ ﴿یٰٓاِبْرٰھِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا﴾ [ھود : ۷۶] ’’اے ابراہیم ! اس سے منہ پھیر لے۔‘‘ ﴿یٰمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ﴾ [الأعراف : ۱۴۴] ’’اے موسیٰ ! میں نے تجھ کو لوگوں پر برگزیدہ کیا ہے۔‘‘ ﴿یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَم﴾ [المائدۃ : ۱۱۰] ’’اے عیسیٰ ! بیٹے مریم کے۔‘‘ لیکن جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا جاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک، یعنی محمد و احمد صلی اللہ علیہ وسلم نام لے کر نہیں پکارا جاتا، بلکہ اوصاف عالیہ سے، ان کو اسم کے مقام پر رکھ کر، پکارا جاتا ہے کہ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عالی جاہ اور بلند پایہ معلوم ہو، مثلاً : ﴿یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ﴾ [المائدۃ : ۶۷] ’’اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !پہنچا دو۔‘‘ ﴿ ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ﴾ [التحریم : ۹] ’’اے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم )! کافروں سے جہاد کرو۔‘‘ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کے کمالات و محاسن کاملہ کیفیت و کمیت کے اعتبار سے انبیاے سابقین کی نسبت اکثر و اعلیٰ نہ ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان کی طرح نام ہی سے خطاب کیا جاتا۔ مخفی نہ رہے کہ موصوف کے نام کی تصریح کو چھوڑتے ہوئے اس کی تعظیم و تکریم اور بزرگی کے
Flag Counter