Maktaba Wahhabi

498 - 668
نوشتوں کو فراہم کر کے اس ترتیب سے لکھنا، جو ترتیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سکھائی تھی، پھر خالص قرآن کو جمع کرنا اور اس کو حفاظ کے حافظے کے ساتھ مقابلہ کر کے تحقیق سے سر انجام دینا، مشکل کام نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ لیکن خدا تعالیٰ نے خاص اپنی رحمت کے ساتھ اس کام کو سیدنا زید رضی اللہ عنہ کے لیے آسان کر دیا۔ قابلِ غور سوال: پھر ایک اور سوال بھی غور طلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں زید رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور بھی بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے، جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن لکھایا تو پھر زید رضی اللہ عنہ میں کیا خصوصیت تھی کہ خلفا نے قرآن کے جمع کا کام ان کے سپرد کیا؟ اس کا جواب خود سیدنا زید رضی اللہ عنہ کے ایک واقعے سے مل جاتا ہے۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہود سے لکھائی سیکھا کروں ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خدا کی قسم مجھے اس بات کا ہر گز اعتبار نہیں ہے جو یہودی میرے لیے لکھتے ہیں ۔ پس میں نے لکھنا سیکھنا شروع کر دیا اور نصف مہینا بھی گزرنے نہ پایا کہ میں لکھنے میں ماہر ہو گیا۔ (سنن أبي داود، کتاب العلم) [1] صرف پندرہ دن میں سیدنا زید رضی اللہ عنہ کا کتابت میں ماہر ہو جانا در اصل یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزانہ حکم کا سبب تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کی وجہ سے وہ قوی الحفظ اور ماہرِ کتابت ہو گئے۔ پانچویں بات: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جن نوشتوں سے قرآن کو نقل کیا تھا وہ آپ کو متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے نسخے مل گئے تھے، یعنی ایک سورت کسی ایک صحابی سے ملی، پھر وہی سورت کسی دوسرے صحابی سے بھی مل گئی، سوائے ان آیات اور الفاظ کے جو سورت توبہ کے آخر میں ہیں کہ وہ ان کو سوائے خزیمہ رضی اللہ عنہ کے اور کسی دوسرے صحابی سے لکھے ہوئے نہ ملے۔ اگر ان کے علاوہ بھی کچھ آیات نہ ملتیں تو آپ اس کا ذکر بھی ضرور کرتے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ قرآن مکمل طور پر جمع کیا گیا تھا اور سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے بعد سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا زوجۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس محفوظ رہا اور بعد میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی قرآن کو نقل کراکر مشتہر کرایا، جو مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ثابت ہے:
Flag Counter