Maktaba Wahhabi

258 - 668
مالِ غنیمت فرماتے ہیں کہ اس قاعدے کی خلاف ورزی کبھی نہیں کرنی چاہیے کہ جس جس ملازم نے میدانِ جنگ میں جو رتھ، گھوڑے، ہاتھی، خچر، زر و مال، اناج، گائے وغیرہ، مویشی، عورتیں اور دیگر ہر قسم کا سامان از قسم کم قیمت معدنیات اور گھی اور تیل وغیرہ کے کُپّے فتح کیے ہوں وہی ان کا حق دار ہے، اہلِ فوج کا فرض ہے کہ مالِ غنیمت کا سولھواں حصہ راجا کی نذر کریں اور جو مال سب کی متفقہ کوششوں سے ہاتھ آیا ہو اس کا سولھواں حصہ را جہ فوج کو بانٹ دے (منو سمِرتی ادھیاے ۷ شلوک نمبر ۸۰ تا ۸۲، ۸۷،۸۹، ۹۱،۹۷ ستیارتھ پرکاش باب ۶ فقرہ ۱۱،۱۲) مذکورہ بالا اشیا میں جو لوٹ میں ہاتھ آئیں ہوں ، ان میں عورتوں کا بھی ذکر ہے۔ تقسیم کے بعد دیگر اشیا کی طرح ان کو بھی اپنے استعمال میں لانا چاہیے، یہاں نکاح کا ذکر تک نہیں ہے۔ پھر جس جس ملازم نے جس چیز کو فتح کیا ہو وہی اس کا حق دار ہے تو کیا ایک شخص نے مثال کے طور پر چار یا پانچ عورتوں کو لوٹ کر اپنے قبضے میں کیا تو کیا ان کے استعمال کرنے کا وہی حق دار ہو گا؟ اگر یہ سچ ہے تو کثرتِ ازواج ایک سے زیادہ عورتوں کا استعمال کرنا ثابت ہوا جس پر ہمارے سماجی متروں کا اعتراض ہے۔ نیز اس کے برعکس، مثلاً دو تین ملازم ایک ہی عورت کو لوٹ کر لائے تو کیا وہ دو تین شخص بھی اس کو اپنے استعمال میں لائیں گے؟ اگر ایسا کریں گے تو کس طرح؟ ناظرین! اسلامی جہاد پر اعتراضات کا تحقیقی و الزا می جواب ختم ہوا۔ اب مسئلہ کثرتِ ازواج، یعنی ایک سے زیادہ نکاح اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات پر فریقین کے اعتراضات کو بمع جوابات ذکر کیا جاتا ہے۔ سیرۃ المسیح کے مصنف عیسائی نے اس مسئلے کو اجمالی طور پر دل آزار الفاظ اور بدزبانی سے ذکر کیا ہے۔ اس لیے اس کے مقابلے میں بنظرِ مضمونِ اختصار تحقیقی جواب کو ذکر نہیں کیا جائے گا، تاکہ تکرار نہ ہونے پائے۔ اِس کو کلام الرحمن کے مصنف آریہ کے جواب میں ذکر کرنا مناسب سمجھا گیا، چونکہ تحقیقی جواب ہر فرقے کے لیے ایک ہی ہوتا ہے، لہٰذا عیسائیوں کے جواب میں اس کو کافی سمجھا گیا۔
Flag Counter