Maktaba Wahhabi

413 - 668
نازل ہوتی تھیں ، اس وحی کی ہم تکذیب کیا کرتے تھے۔ میں اور صفوان نے جب مشورہ کیا تو کوئی شخص ہمارے پاس نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف ہے جس نے مجھے اسلام کا راستہ دکھایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اپنے بھائی کو دین سکھاؤ اور قرآن پڑھاؤ۔ پھر عمیر نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں دینِ اسلام کا نور بجھانے کی بڑی کوشش کیا کرتا تھا۔ اب میں چاہتا ہوں کہ مجھے اجازت فرمائی جائے کہ میں مکہ میں جا کر دینِ اسلام کی طرف عوام کو دعوت دوں ۔ حضور علیہ السلام نے اس کو اجازت دے دی، وہ مکہ میں پہنچ کر اسلام کی تبلیغ کرنے لگا۔ اس کے ہاتھ پر بہت لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے حسبِ وعدہ نبی علیہ السلام کو قتل سے محفوظ رکھا۔[1] (سیرت ابن ہشام جلد دوم) غزوۂ احد میں نبی علیہ السلام کو سخت مصیبت پیش آنا: ابن اسحاق نے یہ ارشاد حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ نبی علیہ السلام کی رباعی توڑی گئی اور دانت شہید کیا گیا۔ احد کی جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبارک پر زخم آیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبارک پر خون جاری تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے فرماتے تھے: وہ قوم کس طرح نجات پا سکتی ہے جنھوں نے اپنے نبی کے چہرے کو لہو لہان کر دیا، بحالیکہ وہ ان کو خدا کی طرف دعوت دے رہا ہے ؟! عتبہ بن ابی وقاص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دانت شہید کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخساروں پر کافی زخم آئے۔[2] (سیرت ابن ہشام، ج ۳، باب غزوۃ احد) صحیح بخاری کی روایت میں آتا ہے کہ نبی علیہ السلام کے سر مبارک پر زخم کاری لگایا گیا۔ مطابقت اس کی یہ ہے کہ زخم سر پر آیا اور لہو جاری ہو کر چہرے پر بہنے لگا اور دانت کے شہید ہونے کی وجہ سے چہرے مبارک پر بھی زخم تھا۔ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ڈھال میں پانی لایا کرتے تھے اور حضرت فاطمہ زخم کو صاف کر رہی تھیں ۔ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو معلوم ہوا کہ خون بند نہیں ہو رہا تو ایک بوریا کو جلا کر زخم میں دے دیا اور خون بند ہو گیا۔[3] اس شدت کی مصیبت میں ابلیس شیطان
Flag Counter