Maktaba Wahhabi

64 - 668
کی وحی سے لبریز بھی ہے۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم تمام نبیوں کے علم کے برابر ثابت ہوا تو سب علمی کمالات حاصل ہونے کی وجہ سے اسے دینِ کامل قرار دیا۔ نویں آیت: دینِ کامل: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ [المائدۃ : ۳] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مع امت کے خطابِ الٰہی ہوا کہ’’ آج کے دن میں نے تمھارے دین کو پوراکر دیا اور اپنی نعمتیں بھی تم پر پوری کر دیں اور میں نے تمھارے لیے دین اسلام پسند کیا۔‘‘ ’’اَلْیَوْمَ‘‘جس کا ترجمہ آج کا دن ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ جس دن یہ آیت نازل ہوئی، اسی دن اسلام تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس سے پہلے ناقص تھا۔ پورا یا مکمل اس چیز کو کہتے ہیں جس کے تمام اجزا جمع ہو جائیں ، کوئی جزو اس کا باقی نہ رہے، کوئی چیز اس میں داخل نہ ہو سکے اور نہ اس سے نکالی جا سکے کہ ان دونوں صورتوں میں وہ چیز مکمل نہ رہے گی۔ قرآن و حدیث میں دیگر کمالات کے علاوہ یہ ایک عظیم الشان کمال ہے کہ ان دونوں میں جو تعلیم مذکور ہے، وہ کامل اسلام ہے۔ آیت سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ شریعت کو مقرر کرنے والا خدا ہی ہے۔ جس مسئلے کا ثبوت خدا اور رسول سے نہ ہو، وہ شریعت کا مسئلہ ہی نہیں ہے، بلکہ بدعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیا علیہم السلام پر ایسا کمال اور شرف بخشا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی شریک نہیں ، کیونکہ پہلے انبیا علیہم السلام کے دین ان کی اقوام کے لیے تو بے شک کامل تھے، لیکن جب ان کی نبوت کا زمانہ گزر جاتا تو ان کے دین کی تکمیل بھی زائل ہو جاتی تھی، بخلاف اس دین کے کہ یہ ہمیشہ کے لیے تمام جہان کے لیے کافی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت اس امت کو کامل دین دے کر بہت عظیم الشان نعمت سے ممنون فرمایا، جس سے تمام نعمتیں حاصل ہو جاتی ہیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ دینِ اسلام کو پسند فرماتا ہے۔ اس دین کے ہوتے ہوئے اُمت کو کسی دوسرے دین کی محتاجی نہیں رہتی اور نہ کسی نئے نبی کی ضرورت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر ختمِ نبوت کا تاج پہنایا۔ تفسیر ابنِ کثیر میں اسی آیت کے ماتحت لکھا ہے کہ
Flag Counter