Maktaba Wahhabi

479 - 668
احکام کے معنی ثابت اور مضبوط رکھنے کے ہیں بخلاف نسخ کے کہ اس کے معنی زائل و ساقط کرنے کے ہیں اور آیات آیت کی جمع ہے۔ پس بموجب اس کے آیت کے یہ معنی ہوئے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کی تمام آیات کو ایسا مضبوط اور قائم کیا، جن سے ایک حرف کا بھی ردّ اور منسوخ ہونا محال ہے اور کسی صحیح حدیث میں بھی یہ نہیں آیا کہ پہلے قرآن کی آیت نازل کی گئی، پھر اس کے لفظ منسوخ کر دیے گئے۔ پھر اس آیت میں قرآن کا نام کتاب اس لیے رکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کی آیات کو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت لکھوا کر مضبوط اور مستحکم کرا دیا۔ اس گفتگو سے اُن حدیثوں کا بھی اجمالی طور پر جواب آگیا جو مخالفین پیش کرتے ہیں کہ یہ قرآن کی آیات تھیں ، جو اب موجودہ قرآن میں نہیں پائی جاتیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ جو احکام ساقط اور منسوخ کر دیے گئے تھے، وہ وحی حدیث تھی، قرآن ہر گز نہیں تھا، جن کا ثبوت عن قریب آئے گا۔ ٭٭٭ ان احادیث کا بیان جن سے حفظِ قرآن کا معارضہ کیا جاتا ہے اعتراض: بعض آیات لکھانے اور حفظ کیے جانے سے پہلے ہی گم ہو جاتی تھیں ۔ (میزان الحق) جواب: جو عبارت لکھانے اور حفظ کرانے سے پہلے ہی گم ہو جاتی تھی، اس کو آیات قرآنی اور جزوِ قرآن سمجھنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ پادری صاحب نے جن احادیث کو تحریفِ قرآن کی سند بنا کر پیش کیا ہے، اُن میں سے صحیح کا جواب دینا ہم پر ضروری ہے۔ ٭٭٭
Flag Counter