Maktaba Wahhabi

513 - 668
ایک نوع ہے، جس کو آیت مندرجہ بالا باعتبار اپنے اطلاق کے شامل ہے۔ پس اس آیت میں تحریف لفظی کا بین طور پر ثبوت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے یہودی تورات میں اپنے من گھڑت اعتقادات کی رسوم اور بدعات کلامِ الٰہی میں صرف اس لیے لکھتے تھے کہ عوام الناس میں یہ عبارات بھی کتابِ مقدس ہی سمجھی جائیں ۔ چنانچہ اس بات کی وضاحت مندرجہ ذیل آیت سے بھی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی چالاکیوں اور ہیرا پھیری اور مکرو فریب کی شکایت ان الفاظ کے ساتھ قرآن مجید میں کی کہ خرابی اور ہلاکت اور جہنم ہے ان لوگوں کے لیے جو خود اپنے ہاتھ سے کتاب کو لکھتے ہیں اور پھرکہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تا کہ اس کے بدلے تھوڑی قیمت کو خریدیں ، پھر فرمایا کہ خرابی ہے واسطے اس چیز کے جو انھوں نے خود اپنے ہاتھ سے لکھی اور ہلاکت ہے ان کے لیے اس سبب سے جو وہ کمائی کرتے تھے۔ (سورۂ بقرہ، رکوع ۹) [1] من گھڑت روایات: اس آیت میں یہودیوں کی کتاب اللہ میں تحریف لفظی کا ذکر صاف طور پر ہے کہ خود جھوٹ اور من گھڑت روایات بنا کر کتابِ مقدس میں لکھ دیتے تھے۔ پھر لوگوں میں مشہور کر دیا کرتے تھے کہ کتابِ مقدس میں یوں لکھا ہوا ہے۔ پھر ان بناوٹی باتوں سے لازماً ان کو وقتی طور پر فائدہ ہوتا تھا، جس کمائی کو خدا نے ناجائز قرار دیا ہے اور ان کی ہلاکت کا سبب ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ مندرجہ بالا آیت کے تحت تفسیر ابنِ کثیر میں یوں لکھا ہے کہ یہودیوں نے تورات کو محرف و مبدل کر ڈالا اور جس چیز کو چاہا اس میں زیادہ کر دیا اور جو چیز ان کے خلاف تھی اس کو کتابِ مقدس سے نکال دیا۔ پھر حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کا وہ قول، جو صحیح بخاری میں ہے، نقل کیا کہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کے ما تحت یوں فرماتے ہیں کہ اہلِ کتاب نے اللہ کی کتاب کو مبدل و متغیر کر ڈالا اور قرآن نے اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ انھوں نے تھوڑا مول لینے کے لیے یہ کام کیا۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تھوڑا مول لینے سے مراد دنیا کمانا ہے۔ (ابن کثیر) [2]
Flag Counter