Maktaba Wahhabi

399 - 668
اس سے ظاہر ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کا دل حضرت سلیمان علیہ السلام کے دل سے زیادہ عقل مند اور خدا کی طرف کامل تھا۔ جب ہی تو انھوں نے اوریاہ کی عورت سے زنا کیا اور اسے قتل کرا دیا اور اس کی عورت کو اپنی جورو بنایا۔ ان کے دل نے یہ سمجھا ہو گا کہ یہ افعال خدا کے نزدیک پسندیدہ ہیں ، جبکہ ان کا دل خدا کی طرف کامل تھا تو وہ گناہ کس طرح کر سکتے تھے؟ نیز اس سے خدا کی وعدہ خلافی اور عہد شکنی بھی ثابت ہو گئی، کیوں کہ خدا نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ میں نے تجھ کو پہلے اور پچھلے لوگوں سے زیادہ عقل مند دل بخشا، مگر بہ نسبت ان کے دل کے ان کے باپ حضرت داؤد علیہ السلام کا دل خدا کی طرف کامل تھا اور ان کا ناقص۔ نیز یہ بھی ظاہر ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دل کا شرک کی طرف مائل ہونا اللہ کے حکم کے خلاف نہ تھا، بلکہ رضاے الٰہی کے عین مطابق تھا۔ اگر خلاف ہوتا تو آپ خدا کے بخشے ہوئے عقل مند دل سے سمجھ جاتے کہ غیر معبودوں کی طرف مائل ہونا شرک ہے۔ پس نتیجہ بالکل صاف ہے، ازروئے بائبل شرک خدا کے نزدیک پسندیدہ افعال میں سے ہے۔ نعوذ باللّٰه من ذ لک الکفر۔ سیرت: عدِم محبت بدخواہی سے واقع ہوتی ہے، سورۃ مائدہ کے رکوع۸ میں ہے: اے ایمان والو! مت پکڑو یہود اور نصاریٰ کو رفیق۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کا خبث تھا۔ بصیرت: یہ آپ کی باطنی کیفیت کا اثر ہے، جس کے باعث آپ نے مطلب نہ سمجھا۔ آیت نے اخلاقی محبت سے منع نہیں کیا، بلکہ مذہبی دوستی سے روکا ہے، اس لیے آیت میں ’’اولیا‘‘ کا لفظ وارد ہوا ہے، جس کے معنی مدد گار کے ہیں ۔ پس ایسی دوستی جس میں ایک دوسرے سے مذہبی امداد حاصل کی جائے، یہود ونصاریٰ سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ وہ اہلِ اسلام کے دشمن ہیں ۔ دشمن سے ایسی دوستی موجبِ نقصان ہے۔ مذہبی دوستی ایسی روحانی رشتے داری ہوتی ہے کہ اگر باپ اور بیٹے کے درمیان مذہبی مخالفت پیدا ہو جائے تو وہ بھی ایک دوسرے سے قطع تعلق کر لیتے ہیں اور عقل بھی اس امر کی مقتضی ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی اس پر عمل کیا، جیسا کہ انجیل کا بیان ہے: پھر اس کی ماں اور اس
Flag Counter