Maktaba Wahhabi

487 - 668
پس بموجب اس کے یہ معنی ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ سورت دو سو (۲۰۰) آیات کی مقدار میں پڑھی جاتی تھی۔ باقی الفاظ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض آیات کی تفصیل اور تشریح میں سن رکھے تھے اور یاد داشت کے لیے ان کو پڑھتے بھی تھے اور قلم بند بھی کر رکھے تھے۔ چونکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام سورتوں کا خالص متن لکھوایا تھا، اس لیے ان الفاظ کو، جو تشریحی الفاظ تھے، الگ کر دیا۔ لہٰذا باقی اصل آیاتِ قرآنی سورت الاحزاب اتنی ہی آیات پر مشتمل رہ گئی جتنی کہ وہ تھیں ۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اس سورت کا مقدار سورت بقرہ جتنا بتایا ہے، جس کی دو سو چھیاسی (۲۸۶) آیتیں ہیں ۔ (مسند احمد و تفسیر ابن کثیر) [1] پس یہ بات صاف اور واضح ہو گئی کہ اگر وہ تشریحی الفاظ آیاتِ قرآنی ہوتے تو اس قدر اختلاف نہ ہوتا۔ در اصل وہ تھے ہی تفسیری الفاظ، جو کسی کو زیادہ یاد تھے اور کسی کو کم۔ پھر اگر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان الفاظ کو قرآن سمجھتے تو ضرور قرآن کی طرح یاد کرتے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں یا اُن کی شہادت کے بعد اُن کو قرآن میں لکھ دیتے، لیکن انہوں نے ایسا ہر گز نہیں کیا۔ یہ اور اس طرح کے اور ثبوت کتبِ احادیث میں بکثرت موجود ہیں ۔ چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت ﴿وَ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی﴾ کے ساتھ ’’وصلاۃ العصر‘‘ کا لفظ بھی لکھایا اور فرمایا کہ میں نے اس لفظ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا ہے۔ علاوہ ازیں سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بھی کہتے ہیں کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’صلاۃ الوسطی‘‘ ’’صلاۃ العصر‘‘ ہے اور یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں ۔ (ترمذی ابواب التفسیر، سورۃ البقرہ) [2] مخالفین کی چالاکی: امام نووی رحمہ اللہ شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں کہ چونکہ ایسی شاذہ قراء تیں متواترہ نہیں اور قرآن تواتر سے ثابت ہے، لہٰذا ایسے الفاظ کو قرآن سمجھنا غلطی ہے اور پھر ان کے راوی، یعنی بیان کرنے والے بھی اس بات پر بضد نہیں ہیں کہ یہ قرآن ہے، بلکہ یہ صحیح حدیث کا حکم رکھتے ہیں ۔ مخالفین کی حیرت انگیز چالاکیوں سے تعجب ہوتا ہے کہ جب وہ کسی حدیث میں قرآن کی کسی آیت کے ساتھ کوئی
Flag Counter