Maktaba Wahhabi

174 - 668
دوسری قسم کے فضائل جن کا ذکر کتاب اللہ اور سنتِ صحیحہ میں آ چکا ہے، ان پر اعتقاد رکھنا فرض اور ضروری ہے اور ان کا انکار کرنا صریح کفر ہے اور عوام میں ان کا ذکر کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظیم الشان سنت ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘ [سورۃ البقرۃ: ۲۵۳] یہ آیت بآواز بلند پکار رہی ہے کہ انبیا علیہم السلام فضیلت میں یکساں نہیں ہیں ، بلکہ بعض کو بعض پر فضیلت دی گئی ہے۔ چونکہ فخرِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم میں محاسنِ کاملہ و محامدِ عالیہ اس کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ کسی دوسرے نبی میں ان کی مثل نہیں مل سکتی، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سب نبیوں سے افضل اعتقاد رکھنا ایمان کا جزو لاینفک ہے، جس کے انکار سے ایمان معدوم ہو جاتا ہے اور انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ فافھم نواں شبہہ: علاوہ ازیں مخالف یہ کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہیں دیتے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھ کو موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہ دو۔‘‘ ( مشکاۃ، باب في بدء الخلق) [1] ازالہ: جواب اس حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام میں ایک جزوی فضیلت ہے، جو سوا ان کے کسی نبی میں نہیں پائی جاتی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’قیامت کے دن سب لوگوں پر بے ہوشی طاری ہو جائے گی اور میں بھی ان کے ساتھ بے ہوش ہو جاؤں گا۔ پس سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کے کنارے کو پکڑے ہوئے ہوں گے، پس میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے یا ان لوگوں میں ہوں گے جو بے ہوش نہیں ہوئے۔‘‘ (حوالہ مذکور) [2] حضرت موسیٰ علیہ السلام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہوش میں آنا یا بے ہوش نہ ہونا، یہ ان کی ایک جزوی
Flag Counter