Maktaba Wahhabi

378 - 668
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنیٰ بیٹے کی جورو سے نکاح کرنے پر ایک منصف مزاج غیر متعصب پنڈت کی رائے یہ پنڈت آتما نند مصنف وید ارتھ پرکاش ہندو مذہب میں ست دھرم فرقہ کے بانی ہیں ۔ یہ مسلمان ہیں اور نہ ہی عیسائی۔ مگر تا ہم ان کا دل مذہبی تعصب کی زنجیروں سے آزاد ہے اور یہ معقول بات کو تسلیم کرنے میں دریغ نہیں کرتے۔ پنڈت جی ممدوح نے اپنی رائے کی بنا بھی وید منتر پر قائم کی ہے۔ چنانچہ اس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں : رگ وید منڈل ۷ سوکت ۴ منتر ۷ ،۸ میں اپنی بیوی میں اپنے نطفے سے پیدا شدہ بیٹے کے علاوہ کسی دوسری عورت میں کسی غیر از خود مرد کے نطفہ سے پیدا شدہ بیٹے کو بیٹا بنانے یا لے پالک لینے اور اپنی جائداد کا وارث سمجھنے کی سخت تردید پائی جاتی ہے۔ ترجمہ: ’’بے گانے کا دھن نس سندیہہ بلاشبہہ پری تیاجیہ (قابلِ ترک) ہے، ہم مُکھیہ دھن (اصلی دولت) کے سوامی (مالک) ہوں ۔ اے اگنے دوسرے (مرد) سے اتپن ہوئی سنتان پیدا شدہ اولاد اپنی نہیں ہوتی۔ وہ ایک بے سمجھ کی ہوتی ہے، سو ہمیں سچے مارگ سے مت بھٹکا۔ ۷ بے گانہ نس سندیہہ (بلاشبہہ) بطور اولاد گرہن (قبول) کرنے یو گیہ(لائق) نہیں ہے، چاہے بڑا سکھدائی بھی ہو۔ انیہ ادر (غیر عورت کے پیٹ سے) نہ کہ اپنی استری (بیوی) کے ادر (پیٹ) سے اتپن (پیدا) ہوا۔ من (خیال) سے بھی اپنا نہیں ماننا چاہیے، کیونکہ وہ پھر بھی بہت کال پیچھے بھی اپنی نواس (مقام یا نسل) کو جاتا ہے۔ اپنے ونش (کُل) میں جا ملتا ہے۔ سو ہمیں شتروؤں (دشمنوں ) کو بھے (خوف) دینے والا۔ دبانے والا نیا اتپن (پیدا) ہوا۔ پتر پراپت (حاصل) ہو۔ بلفظہٖ۔ یعنی ان وید منتروں میں نیوگ اور نیوگ سے پیدا شدہ اولاد ہر غیر از خود شخص سے پیدا شدہ
Flag Counter