Maktaba Wahhabi

58 - 668
جاننا چاہیے کہ جو میثاق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انبیاے کرام علیہم السلام سے لیا گیا، اس کی ترجیح کی دلیلِ نفس آیت میں بھی مذکور ہے، مثلاً ﴿اَلنَّبِیِّیْنَ﴾ جمع کا صیغہ ہے جو سب نبیوں کو شامل ہے اور فعلوں کے ساتھ ’’کُمْ‘‘ ضمیر متصل منصوب، یعنی مفعول کی ضمیریں جمع کی ہیں ، پھر دو مستقبل کے صیغے جمع کیے ہیں ۔ ان سب سے یہ واضح ہوا کہ تمام نبیوں کا میثاق اللہ نے جمع کر کے ذکر کر دیا۔ پھر حرف ﴿ثُمَّ﴾سے جو تراخی کے لیے ہوتا ہے، یعنی اس سے پہلے معطوف علیہ کا تحقق ہو جائے تو پھر ملت کے بعد معطوف کے تحقق کی نوبت آتی ہے۔ اس بنا پر جس رسول کے بارے میں اقرار کر لیا گیا، وہ ان سب کے بعد آنے والا ہے اور میثاق میں شامل نہیں ، بلکہ اس سے الگ ہے۔ رہا یہ سوال کہ رسول اسم نکرہ غیر معین ہے، یعنی کوئی رسول، تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کی صفت ﴿مُصَدِّقٌ﴾ تصدیق کرنے والا آئی ہے۔ نحویوں کے نزدیک جب نکرہ کی صفت آ جائے تو نکرہ مخصوصہ ہو جاتا ہے اور اس کی تنکیر زائل ہو جاتی ہے، یعنی معرفہ کے قائم مقام ہو کر اس کی طرح مبتدا بننے کے لائق ہو جاتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ ہر نبی نے اپنے سے پیشتر نبی کی تصدیق کی، جیسا کہ آیت سے ثابت ہے، لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سب سے آخری نبی تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نبیوں کی تصدیق کر دی۔ پس تصدیق کرنے میں بھی تمام نبیوں سے آپ ہی کا مرتبہ بڑا اور بلند ہوا۔ پانچویں آیت: علوِ مرتبت کا تذکرہ: ﴿وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَھُمْ وَ مِنْکَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ﴾ [الأحزاب : ۷] ’’یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)! یاد کرو جس وقت ہم نے تمام نبیوں (علیہم السلام)میں سے ان کا عہد و پیمان پکڑا اور آپ سے اور حضرت نوح اور حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ، بیٹے مریم(علیہا السلام)کے، سے۔‘‘ مفسرین کے نزدیک یہ تبلیغ کا میثاق ہے۔ ہر نبی سے اللہ تعالیٰ نے اس چیز کا اقرار لیا کہ وہ اللہ کے دین کو قائم کریں اور دنیا میں اس کی تبلیغ بھی نہایت کوشش سے کریں ، جیسا کہ آیت کا اگلا حصہ اس کی تائید کرتا ہے۔ ﴿اَلنَّبِیِّیْنَ﴾ جمع کا صیغہ تمام انبیاے کرام علیہم السلام کو شامل ہے ، لیکن ان میں سے پانچ نبیوں کا
Flag Counter