Maktaba Wahhabi

504 - 668
قرآن لکھنے سے الگ کیا جاتا ہے اور اس کو ایک مرد کے سپرد کیا جاتا ہے، حالانکہ جب میں مسلمان ہوا تھا تو وہ مرد کافر کی پیٹھ میں تھا۔ اس سے ان کا اشارہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ (حدیث حسن صحیح ترمذی کتاب التفسیر تفسیر سورہء توبہ) [1] حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خالص قرآن لکھانے کو پسندیدہ افعال میں سے سمجھتے تھے، اسی لیے تو افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ مجھ کو قرآن لکھنے پر کیوں مقرر نہیں کیا گیا۔ اگر آپ اس کام کے خلاف ہوتے تو اس سے علاحدہ ہونے پر فخر محسوس کرتے، کیوں کہ ہر انسان جس کام کو برا خیال کرتا ہے اس سے علاحدگی کو اچھی نظر سے دیکھتا ہے۔ پھر اس کے بعد خود سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگردوں نے کبھی اس کی مخالفت بھی نہیں کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے خیال سے رجوع کر لیا تھا۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا: عیسائی مصنف ’’تاویل القرآن‘‘ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا صحابہ رضی اللہ عنہم پر رعب ڈالنے کی سند میں تحفہ اثنا عشریہ میں سے ایک روایت نقل کی ہے۔ در اصل یہ لوگ اپنے مذہبی تعصب میں آ کر سچائی اور جھوٹ میں تمیز بھی نہیں کرتے۔ جہاں ان کا اپنا معاملہ آ جائے تو صداقت اور انصاف کی تمام حدود کو پھاند کر آگے نکل جاتے ہیں اور بمصداق ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہرطرح کی بناوٹی اور من گھڑت روایتیں پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ مصنف ’’تاویل القرآن‘‘ نے ایسی ہی ایک روایت پیش کی ہے، جس کا ثبوت تو کیا کسی معتبر کتاب میں ذکر تک نہیں ہے۔ وہ روایت یہ ہے کہ قراء توں پر قبضہ کرنے میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے غلاموں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہاں تک سختی کی کہ ان کو مارا اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے تو اپنا قرآن خود بلا مزاحمت حوالے کر دیا تھا۔ اب ان صاحب کو کون سمجھائے! یہ واقعہ تو حدیث کی کسی معتبر کتاب میں باسناد صحیح یا حسن، بلکہ ضعیف اسناد سے بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔ یہ افترا تو کسی ایسے شخص کا معلوم ہوتا ہے جو خاص کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم سے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم ،بلکہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی دشمنی رکھتا ہو۔
Flag Counter