Maktaba Wahhabi

523 - 668
آیت کے تحت مفسرین نے یوں لکھا ہے کہ بے شک اس آیت کے الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے مخاطب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہ اس لیے کہ آیت کا نزول آپ پر ہوا، لیکن در اصل یہ خطاب آپ کو نہیں ، بلکہ آپ کی معرفت ہر اس انسان کو خطاب ہے جو آپ کی رسالت میں شک کرنے والا ہے۔ اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اے انسان! جو ہدایت اور رشد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ہم نے تیرے تک پہنچائی ہے، اگر تجھے اس بات میں شک ہو تو اہلِ کتاب سے دریافت کر لو۔ اس لیے کہ اہلِ کتاب اس رسول کی صداقت تم پر ثابت کر دیں گے، کیونکہ ان کی کتابوں میں اس رسول کے متعلق پیش گوئیاں کثرت سے پائی جاتی ہیں ۔ پھر مفسرین کی اس تفسیر کی شہادت اور صداقت قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے بھی ملتی ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رسالت اور وحی کے متعلق ہر گز شک نہیں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی میں کسی سے ایسا نہیں کہا کہ شاید میں رسول نہیں ہوں یا جو مجھ پر نازل ہوا ہے یہ وحی بھی ہے یا کہ نہیں ۔ کسی بھی وقت آپ کا یہ شک نہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رسالت اور وحی کے متعلق پورے کے پورے مطمئن تھے اور کسی بھی معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی شک نہیں کیا تھا، جیسا کہ خود قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف موجود ہے کہ رسول، جو چیز بھی اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل کی گئی، اس پر ایمان لایا۔ (سورۃ البقرۃ، رکوع ۴۰) [1] ایمان کے معنی اعتقادِ جازم، سچے دل سے تصدیق اور یقین کامل کے ہیں ۔ پس جب آنحضرت کو اپنی رسالت اور وحی پر کامل اور اکمل یقین تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شکوک و شبہات کیسے پیدا ہو سکتے ہیں ؟ خود بنا ہوا نبی: نتیجہ صاف ہے کہ اس آیت میں جو خطاب ہے، در حقیقت آپ اس کے مخاطب نہیں ہیں ۔ اس بات کی تائید ایک عقلی دلیل سے بھی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ہر مدعی نبوت، سچا ہو یا جھوٹا، اپنی نبوت پر پورا یقین رکھتا ہے۔ جھوٹا نبی اگرچہ اپنی خود ساختہ باتوں اور الہاموں کو عوام میں سچے نبی کی طرح پیش کرتا ہے، لیکن اسے اپنے آپ کو دل میں یقین ہوتا ہے کہ میرا نبوت کا دعویٰ جھوٹا ہے اور یہ نبوت
Flag Counter