Maktaba Wahhabi

351 - 668
نہیں تو نئے پرانے کی تقسیم کرنا ہی باطل ہوا۔ پنڈت جی کی الٹی منطق پر تعجب آتا ہے، کہتے ہیں کہ طلاق سے بچنے کا نیا طریقہ، حالانکہ جو حدیث نقل کی ہے، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طلاق دینے کا ارادہ مذکور ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بوڑھی ہو گئیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو طلاق دینے کا ارادہ کیا،[1] لیکن سودہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ آپ مجھے طلاق نہ دیں ، میں اپنی باری کا حق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیتی ہوں ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو طلاق نہ دی۔ (مسلم) [2] پنڈت جی کی طرف سے شاید اس پر یہ شبہہ ہو گا کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا جب جوان تھیں تو ان کو اپنے پاس روک رکھا، لیکن جب وہ بڑھاپے کی وجہ سے کام کی نہ رہیں تو ان کو طلاق دے کر جدا کرنے کا ارادہ کیا، حالانکہ یہ اخلاق کے خلاف ہے۔ اس کا ازالہ اس طرح ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منکوحہ ہونے کی و جہ سے دیگر ازواج کے ساتھ برابر حقدار تھیں ، لیکن بڑھاپے کی و جہ سے حقِ زوجیت کے ادا کرنے سے قاصرہ تھیں ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ آپ ان کو طلاق دے کر جدا کردیں ، تا کہ ان کا حق آپ پر قائم نہ رہے، بلکہ زائل ہو جائے۔ اگر یہ نکاح میں رہیں ، تو حق نہ ادا ہونے کی صورت میں بے انصافی ہو گی، جو شرعاً اور عقلاً عیب ہے اور شانِ نبوت کے لائق نہیں ۔ پس جب حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سپرد کر دی، تو ان کا حق جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا، زائل ہو کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منتقل ہو گیا۔ اس صورت میں بے انصافی کا اندیشہ نہ رہا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی و جہ سے ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو جدا نہیں کیا۔ فافھم سیرت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی بے قراری۔ بصیرت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی بے قراری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بحالتِ صحت بھی نہ تھی، تو ایسی مرض میں جس میں آپ کی وفات ہوئی، کیسے ہو سکتی ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی محبت
Flag Counter