Maktaba Wahhabi

235 - 668
اسلامی جہاد کی شرائط اور وجوہات کا بیان مذکورہ بالا تفاصیل سے یہ امر توذہن نشین ہو گیا ہو گا کہ اسلام زبردستی اور بزورِ شمشیر نہیں پھیلایا گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام میں جنگ وقتال کی اجازت کیوں دی گئی اور پیغمبر علیہ السلام نے مع صحابہ کے دشمنوں کے ساتھ اکثر جنگ کیوں کی؟ تو جواباً عرض ہے کہ یہاں تھوڑی سی تمہید کی ضرورت ہے، تاکہ ناظرین آسانی سے جواب کو سمجھ سکیں ۔ واضح رہے کہ ہر حیوان ذی روح زندہ جاندار چار پایہ درندہ ہو یا پرندہ طبعی طور پر اس میں یہ فعل پایا جاتا ہے کہ حتی الوسع اپنی جان سے تکلیف اور مصیبت کو دور کرتا ہوا اسے آرام میں رکھنا چاہتا ہے۔ دیکھو بھینس، بیل، بکری اور بھیڑ کے بچے، کتے اور بلے آپس میں لڑتے ہیں تو ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ میں غالب آ کر اپنے دشمن کو ہلاک کر ڈالوں ، تا کہ اس کے شر سے میری جان بچ جائے۔ غالب کے مقابلے میں جب مغلوب اپنے ضعف اور عدمِ قوت کے باعث مقابلے سے عاجز آ جائے تو اس سے ڈرتا ہوا بھاگنے کی کوشش کرتا ہے اور غالب دوڑ کر اس کو پکڑنے کے درپے ہوتا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو یا نہ ہو، لیکن جان بچانے کی کوشش از حد زیادہ کرتا ہے۔ علاوہ ازیں جب کوئی انسان کسی چارپائے یا کتے اور بلی کو لاٹھی مارنا چاہے تو وہ اپنے ضعف کو محسوس کرتا ہوا اپنی جان کو بچانے کے لیے جگہ چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ ان مشاہدات سے یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچا کہ دشمن کے حملے سے جان بچانا ایک فطرتی اصول ہے، جس کا خالق خدا ہے، ورنہ یہ فعل حیوانات میں نہ پایا جاتا۔ پس چونکہ انسان ذی عقل مدرک الکلیات خدا کی شریعت کا مکلف ہونے کے اعتبار سے ہر حیوان سے افضل واشرف ہے، لہٰذا اس میں یہ فطرتی اصول بدرجہ اتم موجود ہے اور ہونا چاہیے۔ دیکھو انسان کو جب زہریلا باؤلا کتا کاٹنا چاہے یا سانپ اسے ڈسنے کا ارادہ کرے تو انسان فوراً لاٹھی یاپتھر لے کر ان کے قتل اور ہلاک کرنے کا اس لیے ارادہ
Flag Counter