Maktaba Wahhabi

214 - 668
غیظ و غضب سیرت: بخاری پارہ اول ’’باب بدء الوحي‘‘ میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غیظ و غضب کا بھی ذکر ہے۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نمایاں غصہ کیا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر اس کے آثار نمایاں ہو گئے۔ جنگِ تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو نمازی صحابیوں کو پانی کے واسطے گالیاں دیں ۔ الفاظِ حدیث اس امر پر دال ہے۔ (ترجمہ صحیح مسلم جلد شش، کلام صفحہ: ۲۸۳) بصیرت: کسی شخص کو خدا کی شریعت کے خلاف غلطی کرتے ہوئے دیکھ کر غصہ کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ، بلکہ یہ اخلاقِ حسنہ کا اعلیٰ ترین درجہ ہے، تا کہ وہ شخص ملامت اور ڈانٹ سن کر غلطی کو ترک کرتا ہوا نیکی کی طرف رجوع کرے۔ ایسا غصہ ہر عاقل کے نزدیک اعلیٰ اخلاق اور خوبی ہے، بشرطیکہ اس میں فحش الفاظ اور حیا سوز تعلیم نہ پائی جائے۔ پنڈت جی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گالیوں کو تو نسبت کیا، لیکن ان کے الفاظ کو نہیں بتایا کہ وہ کیسی گالیاں تھیں ، کس طرح بتاتے، حالانکہ ان کا ثبوت کتبِ احادیث میں بالکل معدوم ہے۔ پنڈت جی کو ہم بتاتے ہیں کہ آپ غصہ کی حالت میں بوقت ملامت کیسے الفاظ فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ کو فرمایا: اے زیاد! تیری ماں تجھے گم پائے، تیری نسبت میرا خیال تھا کہ تو مدینے کے سب آدمیوں سے زیادہ سمجھ دار ہے (مشکاۃ کتاب العلم) [1] جب ماں سے بیٹا غائب ہو جائے تو اس کی جدائی کی وجہ سے ماں کو بہت مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب بیٹا واپس آ جائے تو ماں کا خوشی کی وجہ سے کلیجہ اور آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں ۔ بیٹے کو وہ دعائیں دیتی ہے۔ بیٹا عقل مند ماں کی شفقت دیکھ کر اس سے محبت اور خدمت زیادہ کرتا ہے۔ اسی طرح
Flag Counter