Maktaba Wahhabi

483 - 668
قرآن جلانے کا اعلان جاری کیا گیا تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کیا کہ تم میں سے جو شخص قرآن چھپانے کی طاقت رکھے، وہ اسے چھپا لے۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ستر دفعہ قرآن کو پڑھا اور میں نے جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پاک سے یاد کیا، کیا میں اسے چھوڑ دوں ؟ کیونکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ایسے قرآنی نسخے جن میں تفسیری الفاظ زائد از قرآن تھے، جلا کر نابود کرنا چاہتے تھے، تا کہ خالص کتاب اللہ کے ساتھ تفسیر کو بھی قرآن نہ سمجھا جائے۔ سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کی مخالفت کی اور مخالفت کرتے ہوئے ان کو محفوظ رکھنے کی کوشش تو کی، لیکن یہ صاف اور صریح دعوی نہیں کیا کہ یہ الفاظ بھی قرآن مجید کی آیات میں سے ہیں ۔ پھر اگر یہ الفاظ جل کر نابود بھی ہو چکے تھے تو خطرہ ہی کیا تھا؟ حالانکہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ بذاتِ خود جلیل القدر حفاظ میں سے تھے اور پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص کر صحابہ کو حکم دیا تھا کہ عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، سالم اور معاذ بن جبل سے قرآن کو پڑھو۔ (صحیح مسلم جلد ۲، کتاب فضائل، مناقب ابن مسعود) [1] پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے لیے کیا مشکل تھا۔ وہ تو دوبارہ بھی اپنا نسخہ قلم بند کر سکتے تھے، لیکن اُن کا دوبارہ قلم بند نہ کرنا، اس بات کی بین دلیل ہے کہ وہ خود بھی ان الفاظ کو جزوِ قرآن نہ سمجھتے تھے۔ بالآخر آپ نے ان تمام تر اختلافات سے رجوع کرتے ہوئے دیگر صحابہ کی طرح نسخۂ عثمانی ہی کو صحیح اور مکمل تسلیم کر لیا۔ آپ کے رجوع کی دلیل ذکر کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس نسخے کی تفصیل بیان کی جائے کہ وہ مابین اللوحین کیا چیز تھی، جس کو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جلانا نہیں چاہتے تھے؟ ٭٭٭ مابین اللوحین کیا تھا؟ لوح اور دفہ یہ دونوں لفظ مترادف ہیں ، جن کے معنی تختی کے ہیں ، یعنی جو کتاب مجلد ہوکر دو گتوں کے درمیان آ جائے، اس کو مابین الدفتین کہا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عرف میں اس لفظ کا
Flag Counter