Maktaba Wahhabi

325 - 668
کہ منوجی کے زمانے میں آٹھ سال کی لڑکی بالغہ ہو جایا کرتی تھی۔ اسی طرح حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سنِ بلوغت کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔ پنڈت جی پر منوجی کا پرمان اس لحاظ سے حجت ہے کہ ان کے مہا رشی رسول ستیارتھ پرکاش میں بہت سے شرعی مسائل نقل کرتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جو شخص کسی شخص کو رسول تسلیم کرے، اس کی مسلمہ کتاب بھی اس پر حجت ہو گی۔ سیرت: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نابالغی کی حالت میں نکاح و زفاف کیا۔ حتی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے عقد و نکاح کا علم بھی نہ تھا۔ نو برس کی لڑکی جس نے ابھی اپنے ایامِ طفلی کے کھلونے تک ترک نہیں کیے، وہ امورِ خانہ داری اور بی بی و شوہر کے تعلقات کو کیا سمجھ سکتی ہے۔ بصیرت: کیسا سفید جھوٹ ہے۔ قریب ہی حدیث گزر چکی ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ نکاح کیا تو میری عمر چھے سات سال کی تھی۔ یعنی چھے اور سات کے درمیان۔ اور جب میری رخصتی ہوئی تو میری عمر نو سال کی تھی۔ (بخاري و مسلم، کتاب النکاح) [1] اس سے ظاہر ہوا کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اپنے نکاح اور رخصتی کا پورا علم تھا اور بوقتِ رخصتی آپ رضی اللہ عنہا بالغہ بھی تھیں ۔ انہی کا ارشاد ہے کہ جب لڑکی نو سال کی ہو جائے تو سنِ بلوغت کو پہنچ جاتی ہے، کیونکہ وہ اس عمر میں بالغہ ہو چکی تھیں ۔ مزید برآں چھوٹی عمر ہی میں فطرتی طور پر ان میں عقل اور علم اور فہم زبردست تھا، جیسا کہ ان کے ترجمے میں گزر چکا ہے۔ نیز یہ کہ بالغہ لڑکی کو امورِ خانہ داری اور بیوی و شوہر کے تعلقات بہت جلدی معلوم ہو جاتے ہیں ۔ سیرت: ایسی عمر میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے، جب کہ وہ خود ۵۶ برس کے تھے اور عالمِ شباب سے تجاوز کر چکے تھے، نکاح کرنا کیوں کر مباح سمجھا گیا۔ مسلمان ہی جانیں ۔ صغرِ سنی کی شادی آج بھی مضرت رساں ہے اور پہلے بھی تھی۔ طب و قانون دونوں اس کی اباحت پر نالاں ہیں اور بتلاتے ہیں
Flag Counter