Maktaba Wahhabi

175 - 668
فضیلت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے کمالات و فضائل کلیہ بکثرت پائے جاتے ہیں کہ بعض ان میں سے ایسے ہیں کہ یہ جزوی فضیلت ان میں سے ایک کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام میں یہ ایک جزوی فضیلت ہے تاہم مجھ کو محض ان ہی پر فضیلت نہ دو، مجھ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی ساری اولاد کا سردار، یعنی افضل بنایا ہے۔ غلو اور اس کی مذمت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ فضائل، جو روایاتِ کاذبہ سے ثابت کیے جاتے ہیں ، ان سے یہ مضمون کلیتاً منزہ و مبرّا ہے، کیونکہ وہ حقیقت میں فضائل نہیں ، بلکہ کاذبین کا اختراع اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہے۔ بعض ان میں سے ایسے ہیں جن میں عیسائیوں کی طرح غلو اور مبالغہ پایا جاتا ہے۔ غلو اس زیادتی کو کہتے ہیں ، جو خوش اعتقاد لوگ اپنے پیشواؤں کی نسبت، خواہ وہ نبی ہوں یا ولی، ایسے اوصاف بیان کرتے ہیں جو ان میں نہ پائے جائیں اور وہ قرآن و حدیث کے صریح مخالف ہوتے ہیں ، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف علمِ غیب کی نسبت کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جگہ حاضر و ناظر سمجھنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت مختار کل ہونے کا عقیدہ رکھنا۔ چونکہ یہ صفات خدا تعالیٰ کے ساتھ ہی مختص ہیں ، لہٰذا ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور مخلوق کی طرف نسبت کرنے سے صریح شرک لازم آتاہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں ان کا شان بڑھانے کے لیے خدا کی صفات سے، جن لوگوں نے ان کو متصف کیا ہے، خدا نے ان کے حق میں ﴿لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ﴾ یعنی دین میں زیادتی مت کرو، کسی کی شان کو حد سے نہ بڑھاؤ، ارشاد فرمایا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان حد سے بڑھانے سے روکا۔ حضرت عمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھ کو حد سے نہ بڑھاؤ، جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو حد سے بڑھایا۔ سوائے اس کے نہیں کہ میں اللہ کا بندہ ہوں ، مجھ کو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو۔‘‘ (مسند أحمد، صحیح بخاري، شمائل ترمذي) [1] امام علی بن مدینی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ دوسری حدیث حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ہے: ’’ایک مرد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اے ہمارے سردار! اے ہمارے سردار کے
Flag Counter