Maktaba Wahhabi

91 - 668
2۔رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت سابقہ انبیا کی کتب میں بھی موجود تھی، اسی لیے راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین کے لقب سے بیان فرمایا۔ 3۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور بعثت رحمۃ للعالمین ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت اس دنیا میں موجود تھی اور مہلک عذاب سے دنیا کو امان تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت، وحی، یعنی قرآن و حدیث اور اس پر عمل اور اس کے خصوصاً استغفار وغیرہ، جو ہر وقت دنیا میں ہوتے رہتے ہیں ، ایک لمحہ کے لیے دنیا میں بند نہیں ہوتے، جیسا کہ سابقاً گزر چکا ہے، یہ رسالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد خرقِ عادت عذاب کو مانع ہے۔ اس حدیث کی تائید مندرجہ ذیل حدیثوں سے ملتی ہے۔ احادیثِ نبویہ سے تائید: 1۔ حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَنِيْ ھُدًی وَ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ)) ’’یعنی مجھے اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کی ہدایت اور رحمت کے لیے بھیجا ہے۔‘‘ (مسند أبي داؤد الطیالسي، جز ۵، حدیث أبي أمامۃ) [1] اس حدیث کی اسناد اوّلاً تو صحیح ہے، ورنہ درجہ حسن سے یقینا نہیں گر سکتی ہے۔ 2۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَنَا نَبِيُّ التَّوْبَۃِ و َ نَبِيُّ الرَّحْمَۃِ)) ’’یعنی میں توبہ اور رحمت کا نبی ہوں ۔‘‘ (مشکاۃ، باب أسماء النبي) [2] یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت جو سراسر رحمت ہے، امتی کی توبہ قبول ہونے کی علت ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ امت محمدیہ کا مومن اگر گناہ کرے اور سچے دل سے توبہ کر کے خدا کے سامنے پشیمان ہو جائے تو آسانی سے بلا تکلیف اس کی توبہ قبول کر لی جاتی ہے اور وہ ایسا پاک ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے گناہ کیے ہی نہیں ، بخلاف سابقہ امتوں کے کہ ان کی توبہ نہایت شدت اور سختی سے قبول
Flag Counter