Maktaba Wahhabi

95 - 668
کرے گا کہ سب فنا ہوجاؤ اور اہلِ باطل حق پرستوں پر غلبہ نہیں پائیں گے اور تم سب گمراہی پر متفق نہ ہو گے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر ایسا عذاب نہیں آئے گا کہ وہ سارے نابود ہو جائیں ۔ البتہ کبھی کبھی بطور تازیانہ عبرت بعض مقامات میں بے فرمانوں پر کچھ انواع و اقسام کے عذاب آتے رہیں گے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں ظہورِ عذاب کی خبریں سنائیں ۔ جس قدر مصائب امت پر آتے ہیں ، وہ پہلے دن سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کی تصدیق ہے۔ تنبیہ یاد رہے کہ قرآن جن اشیا کو رحمت بتا رہا ہے، ان میں سے کسی ایک کو بھی رحمۃللعالمین قرار نہیں دیتا، بخلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے کہ ان کو رحمۃللعالمین کا خطاب دے کر تمام انبیا علیہم السلام بلکہ سارے جہان سے افضل ثابت کر دیا۔ جہاں عذاب آئے، اس مقام کے ذوی العقول کے علاوہ غیر ذوی العقول بھی، حیوانات، جمادات، نباتات اس قہر میں شامل ہوتے ہیں اور ان کو تکلیف پہنچتی ہے، جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام وغیرہ کا قصہ اس امر کی شہادت دیتا ہے۔ (دیکھو: سورت ہود:۲۵) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی بدولت ذوی العقول جن و انس کو عذاب سے امان ہوا تو دوسری تمام چیزیں بطریق اولیٰ مامون اور محفوظ رہیں گی، کیونکہ وہ معذب تو تب ثابت ہوں کہ وجودِ عذاب بھی ہو اور خرقِ عادت عام عذاب کا آنا ممکن، لہٰذا ان تمام چیزوں کا ایسے عذاب سے معذب ہونا بھی محال ہوا۔ یہ فائدہ ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبے اور رسالت کے سبب پہنچا۔ یہ خاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا مرتبہ اور فضیلت ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ رحمۃللعالمین کا اگر یہی مطلب ہے کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین و رسالت دنیا میں قائم ہے اور اس پر عملدر آمد بھی ہوتا رہتا ہے، دنیا میں عام عذاب جس سے مخالف یکسر ہلاک ہو جائیں ، آنا ممنوع ہے تو مندرجہ ذیل حدیثوں کا کیا مطلب ہوگا، جن میں اس عمل کی تصریح کی گئی ہے کہ اس امت میں جب شراب نوشی، باجوں کا بجانا اور گانے والی عورتوں کی کثرت ہو جائے گی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیا جائے گا تو اس وقت کئی لوگ زمین میں دھنسائے جائیں گے اور آسمان سے سنگ باری ہو گی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عذاب خاص کر انھیں لوگوں پر ہوگا جو کبائر کا ارتکاب کریں گے۔ اس کا ثبوت ان حدیثوں پر غور کرنے سے ملتا ہے۔ لہٰذا یہ عذاب
Flag Counter