Maktaba Wahhabi

309 - 668
روزے کی حالت میں مباشرت سیرت: روزہ ایک زہد و تقوی ہے، بلکہ عبادت خدا کا ایک زینہ ہے۔ اس حالت میں بوس و کنار کا خیال آنا کہاں تک سکونِ قلب کی دلیل ہو سکتا ہے۔ (صفحہ: ۲۸۹) بصیرت: چونکہ روزہ پنڈت جی کے مذہب کا مسئلہ نہیں ، بلکہ اسلام کا مسئلہ ہے، اور اسلام ہی اس کی تشریح کا حقدار ہے۔ پنڈت جی کے مشورے کی اس میں کوئی گنجایش نہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں اپنی ازواج کا بوسہ لیتے اور مباشرت بھی کرتے۔ اے لوگو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حاجت پر تم سے زیادہ قادر تھے۔ (بخاري و مسلم۔ مشکاۃ باب تنزیہ الصوم)[1] یہ ہے وہ حدیث جس کے ترجمے میں پنڈت جی نے خیانت سے کام لیا ہے۔ حدیث بتا رہی ہے کہ جو شخص اپنے ضبطِ نفس پر قادر ہو، وہی روزہ کی حالت میں اپنی منکوحہ کا بوسہ لے سکتا ہے اور اس کے جسم سے جسم بھی لگا سکتا ہے جو مباشرت کا مفہوم ہے۔ رہا وہ شخص جو ضبطِ نفس پر قادر نہ ہو، بوسہ کے وقت اس کے جذبات شہوانی جوش میں آ جائیں تو اس کو بوسہ و مباشرت اس لیے ممنوع ہے کہ وہ عورت سے صحبت کر کے روزے کو نہ توڑے۔ مشکاۃ کے اسی باب میں اس مضمون کی ایک اور حدیث بھی ہے کہ بوڑھا آدمی جس کے جذبات شہوانی نہایت کم ہوں ، اسے بوسہ لینا جائز ہے، بخلاف جوان مرد کے کہ اسے بوسہ وغیرہ ممنوع ہے۔ یاد رہے کہ بوسہ لینے اور جسم کے ساتھ جسم ملانے سے روزہ فاسد نہیں ہو سکتا۔ ہاں البتہ مجامعت سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح حیض کی حالت میں عورت کے جسم کے ساتھ جسم لگانا جائز ہے۔ حیض کی حالت میں مجامعت کرنا حرام ہے۔
Flag Counter