Maktaba Wahhabi

310 - 668
سیرت: حیض کی حالت میں مباشرت کرنا قرآنی آیات اور اسلامی شریعت کے لحاظ سے مکروہ ہے۔ قرآن تو اس کے بالکل خلاف ہے۔ وہ صاف حکم دیتا ہے: عورتیں جب تک حیض سے پاک نہ ہو جائیں ، تب تک ان کے نزدیک نہ جاؤ۔ (صفحہ: ۲۸۹) بصیرت: پنڈت جی یہ آپ کے فہم کا قصور ہے۔ جس آیت کو آپ نے نقل کیاہے، اس میں ’’محیض‘‘ کا لفظ بھی مذکور ہے، جس کے معنی ہیں : وہ جگہ جس سے حیض جاری ہوتا ہے۔ (فتح الباري شرح صحیح البخاري باب الحیض) [1] پس آیت کے معنی یہ ہوئے کہ حیض کی حالت میں اس جگہ جہاں سے حیض جاری ہوتا ہے اس کے قریب نہ جاؤ، جب تک وہ حیض سے پاک نہ ہو جائیں ، ان سے صحبت کرنا حرام ہے۔ یہ ہے آیت کا مطلب جسے پنڈت جی سمجھ نہیں سکے اور لا علمی کی و جہ سے اعتراض کر دیا۔ عورت کا باقی جسم چونکہ حیض سے آلودہ نہیں ہوتا، لہٰذا اس کے جسم سے جسم لگانا اور بوسہ وغیرہ شرعاً اور عقلاً بھی منع نہیں ہے، بشرطیکہ انسان اپنے نفس پر قابو رکھے۔ دوسرے کے لیے منع ہے۔ حیض کی حالت میں مجامعت کے سوا مباشرت کو قرآن مجید منع نہیں کرتا اور اسی طرح حدیث بھی اس کی موافقت کرتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حیض کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حکم کرتے تھے کہ تہ بند کو سخت باندھ لوں اور پھر مجھ سے مباشرت کرتے۔ (بخاري و مسلم، مشکاۃ باب الحیض) [2] یعنی حیض کی جگہ سے الگ ہو کر باقی جسم سے جسم لگانا، جو حیض سے آلودہ نہیں ہوا، جائز ہے۔ چونکہ حیض کی حالت میں مجامعت کے علاوہ جس مباشرت کی حدیث اجازت دیتی ہے اس سے قرآن منع نہیں کرتا، لہٰذا دونوں میں مطابقت ہو گئی اور کوئی خلاف نہ رہا۔ پنڈت جی کے مذہب میں اگر اس کا جواز پایا جاتا تو وہ اس کی تردید نہ کرتے۔ شاید ان کے مذہب میں بحالتِ حیض عورت کے جسم سے جسم لگانا سوا مجامعت کے یا اس کا پکایا ہوا کھانا یا اس سے پانی لے کر پینا ایسا پلید اور نجس ہو، جیسا کہ
Flag Counter